ہماری مسجد میں کافی صحیح حالت میں اور کافی ضعیف حالت میں قرآن کریم موجود ہیں اور اس کے علاوہ اسلامی دینی کتب بھی موجود ہیں جو کہ صحیح حالت اور ضعیف حالت میں موجود ہیں اور ان کا استعمال اس وقت اس مسجد میں کچھ نہیں ہے اور نہ آئندہ ان کے استعمال میں آنے کی کوئی صورت ہے اور وہ تمام چیزیں مسجد سے الگ ایک جگہ کمرے میں اہتمام اور اکرام کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں، سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں شریعت اور علماء کرام کی کیا رائے ہیں کہ ہم ان قرآن کریم اور دینی اسلامی کتب کو کسی دوسری مساجد وغیرہ میں دے سکتے ہیں یا اس کا صحیح مصرف کیا ہے؟
اگر مسجد کے لیے وقف اشیاء فی الحال استعمال میں نہ ہوں، لیکن آئندہ استعمال کی امید ہو اور وہ اشیاء محفوظ رکھی جاسکتی ہوں تو انہیں آگے کسی اورمسجدیامدرسہ کونہ دیاجائے، بلکہ محفوظ رکھا جائے اور بوقتِ ضرورت اسی مسجد میں ہی استعمال کیا جائے، البتہ اگر آئندہ استعمال کی امید نہ ہو، یا محفوظ کرنا ممکن نہ ہو، ضائع ہونے کا امکان ہو تو مسجد کی ملکیت میں موجود زائد از ضرورت اشیاء کو کسی دوسری قریبی مسجد یامدرسہ میں دیا جاسکتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا آپ کی مسجد میں قرآن پاک اوردیگر اسلامی کتابوں کے کئی زائدنسخے ہیں کہ وہ پڑھنے میں ہی نہیں آتے ہیں تو انتظامیہ کی باہمی مشاورت سے انہیں کسی قریبی مسجد یا مدرسہ میں دینا جائز ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومثله) في الخلاف المذكور (حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه)."
(كتاب الوقف،ج:4،ص:359،ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وفي الدرر وقف مصحفا على أهل مسجد للقراءة إن يحصون جاز وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ فيه، ولا يكون محصورا على هذا المسجد، وبه عرف حكم نقل كتب الأوقاف من محالها للانتفاع بها."
(كتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا،4/ 365، ط:سعيد)
کفایت المفتی میں ہے:
"زائد قرآن مجیدوں کو دوسری مساجد یا مدرسوں میں پڑھنے کے لیے دے دیا جائے؛ کیوں کہ ان کے وقف کرنے والوں کی غرض یہی ہے کہ ان قرآن مجیدوں میں تلاوت کی جائے۔"
(کتاب الوقف، ج:7، ص : 257)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"اگر مسجد میں چٹائیاں زائد موجود ہیں اور حفاظت کی کوئی صورت نہیں، خراب اور ضائع ہورہی ہیں تو زائد چٹائیاں ایسی مساجد میں بچھانا درست ہے جہاں ضرورت ہو، متولی اور دیگر اہل رائے حضرات کے مشورہ سے دے سکتے ہیں، بلا مشورہ نہ دیں؛ تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔"
(فتاوی محمودیہ 14 / 588 ط: فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100035
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن