بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

قرآن پڑھانے کی تنخواہ کو امامت والی تنخواہ میں شامل کرنا/ مدرسہ کی فیس کو مسجد کی فنڈ میں جمع کرنا


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے محلہ کی مسجد کےپیش امام امامت کرانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو قرآن بھی پڑھاتےہیں، ہمارے محلے سے ان کی ماہانہ تنخواہ بمشکل پوری ہوتی ہے، ہم نے ان سے بچوں سے ماہانہ فیس رکھوانے کے لیے کہا، لیکن امام صاحب نے کہا کہ میں قرآن فی سبیل اللّٰہ پڑھاؤں گا۔

1۔ اگر امام راضی ہو تو کیا مدرسے کے بچوں سے ماہانہ فیس وصول کرنا شرعاً درست ہے؟

2۔ یہ فیس امام صاحب کی تنخواہ کے ساتھ شامل کرنا صحیح ہے؟

3۔ اگر امام صاحب اس فیس کو اپنی تنخواہ میں شامل کرنے کیلئے راضی نہ ہوں، تو کیا ان پیسوں کو مسجد کے فنڈ میں جمع کیا جا سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم  پڑھانے پر اجرت لینے کو متأخرینِ احناف نے ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا ہے، لیکن  درحقیقت یہ اجرت  قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی، بلکہ تعلیم قرآن  کے لیے  اپنے آپ کو محبوس  اور دیگر کاموں سے فارغ کر کے وقت دینے کی ہے،نیز ملحوظ رہے کہ اجرت لے کر  مسجد میں قرآن کی تعلیم  دینا یا درس وغیرہ دینامکروہ ہے ، تا ہم اگر خارج مسجد میں کوئی جگہ نہ ہو،توضرورت کی بناء پرمسجد کے اندر  قرآن  کی تعلیم کی اجازت ہے۔

1) اگر امام صاحب  راضی ہو، تو  بچوں سے ماہانہ فیس وصول کرنا درست ہوگا۔

2) اگر امام صاحب  کی اجازت سے فیس لی گئی،اور امام صاحب خود اس کو امامت کی تنخواہ میں شامل کرنا چاہیں،توپھر درست ہے،اگر امام صاحب امامت کی تنخواہ الگ لینا چاہیں،تو پھر یہ فیس امامت کی تنخواہ کے علاوہ امام صاحب کو دی جائے گی۔

3)اگر امام راضی نہ ہو ں یعنی وہ خود بغیر فیس کے سبق پڑھائیں تو بچوں سے فیس وصول کرنا جائز نہیں ہوگا،بلکہ جو فیس وصول کی ہو ،جس طالب علم سے فیس لی ہو، اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا، طالب علم  یا ان کے سرپرست کی اجازت کے بغیر یہ رقم مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

”(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على ‌تعليم ‌القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء ‌تعليم ‌القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.“

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، 55/6، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

”إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم.“

(كتاب البيوع، ‌‌باب البيع الفاسد، 99/5، ط: سعید)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

”قال قاضي خان في فصل المسجد ويكره أن يخيط في المسجد لأن المسجد ‌أعد ‌للعبادة دون الاكتساب وكذا الوراق والفقيه إذا كتب بأجر أو المعلم إذا علم الصبيان بأجر وإن فعلوا بغير أجر فلا بأس به وعن محمد بن سلمة إذا قعد الرجل في المسجد خياطا يخيط فيه ويحفظ المسجد عن الصبيان والدواب لا بأس به.“

(كتاب الصوم، باب الاعتكاف، اعتكاف المرأة، 352/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

دررالحكام فی شرح مجلہ الأحکام العدلیہ میں ہے:

”لا يجوز لأحد أن ‌يتصرف في ملك الغير بلا إذنه.“

(المقالة الثانية، ‌‌(المادة 96)، 96/1، ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں