بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن پاک میں آیت سجدہ تلاوت کرنے پر سجدہ کرنے کی حکمت ، 14 سجدے ایک ساتھ کرنا


سوال

1۔قرآن پاک میں آیتِ سجدہ پڑھنے پر سجدہ تلاوت کا حکم  کیوں ہے ؟

2۔کیا  قرآن پاک کے اختتام پر تمام سجدہ کو ایک ہی وقت میں ادا کر سکتے ہیں؟ تمام سجدے ایک ساتھ اداکرنے کی صورت میں اس کی نیت اورطریقہ کیا ہوگا  ؟

جواب

1۔قرآن کریم میں آیتِ سجدہ پڑھنے پر سجدہ تلاوت کرنے کا حکم بعض مقامات پر باری تبارک وتعالی کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے اور بعض مقامات پر اس لیے کہ جب باری تبارک وتعالی نے کفار کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے انکار کردیا اللہ تبارک وتعالی نے ان کفارکی مخالفت  کرنے کے لیے مؤمنین کو حکم دیا کہ وہ اس مقام پر سجدہ کریں اور بعض مقامات وہ ہیں کہ جن میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام یا فرشتوں کے سجدہ کرنے کی حکایت نقل کی گئی ہے ان کی اقتداء میں عام مؤمنین کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی سجدہ کریں ۔

روح المعانی میں ہے : 

"وقد جاء الأمر بالسجدة لآية أمر فيها بالسجود امتثالا للأمر، أو حكى فيها ‌استنكاف ‌الكفرة عنه مخالفة لهم، أو حكى فيها سجود نحو الأنبياء عليهم الصلاة والسلام تأسيا بهم."

(سورة الأعراف ،5/ 144، ط: دار الكتب العلمية )

2۔قرآنِ مجید مکمل کرنے کے بعد سارے سجدہ تلاوت ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہے، البتہ افضل اور بہتر یہ ہے کہ جس وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی جائے اسی وقت سجدہ تلاوت ادا کرلیا جائے، فقہاءِ کرام نے بلاکسی عذر کے سجدہ تلاوت کو مؤخر کرنے کو مکروہِ تنزیہی (نا پسندیدہ)  قرار دیا ہے،سجدہ تلاوت ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سجدوں سے پہلے اس طرح نیت (دل میں ارادہ) کر لینا کافی ہو گا کہ میرے اوپر جو سجودِ تلاوت  واجب ہیں وہ سجدے ادا کر رہا ہواور کھڑا ہوکر ہاتھ اٹھائے بغیر   "الله أکبر"    کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین مرتبہ"سبحان ربي الأعلی"کہے، پھر "الله أکبر" کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور کھڑا ہوجائے، سجدہِ تلاوت میں تشہد اور سلام نہیں ہے۔

 اگر بیٹھ کر "الله أکبر" کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے اور سجدہ کے بعد"الله أکبر" کہتا ہوا اٹھ کر بیٹھ جائے، کھڑا نہ ہو ،  تب بھی درست ہے،   لیکن کھڑے ہو کر سجدہ میں جانا اور پھر کھڑا ہو جانا افضل ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"باب سجود التلاوة..من إضافة الحكم إلى سببه (يجب) بسبب (تلاوة آية) أي أكثرها مع حرف السجدة (من أربع عشرة آية)(قوله: يجب) أي وجوبا موسعا في غير صلاة كما سيأتي".

(بشروط الصلاة) المتقدمة (خلا التحريمة) ونية التعيين، ويفسدها ما يفسدها: وركنها: السجود أو بدله كركوع مصل وإيماء مريض وراكب (وهي سجدة بين تكبيرتين) مسنونتين جهرا وبين قيامين مستحبين (بلا رفع يد وتشهد وسلام وفيها تسبيح السجود) في الأصح.

(قوله: ونية التعيين) أي تعيين أنها سجدة آية كذا نهر عن القنية، وأما تعيين كونها عن التلاوة فشرط كما تقدم في بحث النية من شروط الصلاة إلا إذا كانت في الصلاة وسجدها فوراً كما علمته ... (قوله: بين تكبيرتين مسنونتين) أي تكبيرة الوضع وتكبيرة الرفع، بحر. وهذا ظاهر الرواية وصححه في البدائع، وعن أبي حنيفة لايكبر أصلاً. وعنه وعن أبي يوسف يكبر للرفع لا للوضع. وعنه بالعكس حلية  ... (قوله: جهراً) أي يرفع صوته بالتكبير، زيلعي. أي فيسمع نفسه به منفرداً ومن خلفه إذا كان معه غيره، ط. (قوله: بين قيامين مستحبين) أي قيام قبل السجود ليكون خروراً وهو السقوط من القيام، وقيام بعد رفع رأسه ... (قوله: في الأصح) قال في فتح القدير: ينبغي أن لايكون ما صحح على عمومه، فإن كانت السجدة في الصلاة فإن كانت فريضةً قال: سبحان ربي الأعلى أو نفلاً قال ما شاء مما ورد: «كسجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره بحوله وقوته فتبارك الله أحسن الخالقين»، وقوله: «اللهم اكتب لي عندك بها أجراً و ضع عني بها وزراً واجعلها لي عندك ذخراً وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدك داود»، وإن كان خارج الصلاة قال كل ما أثر من ذلك اهـ وأقره في الحلية والبحر والنهر وغيرها".

(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيها، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤديا وتسقط بالحيض والردة (إن لم تكن صلوية) فعلى الفور لصيرورتها جزءاً منها.

(قوله: على المختار) كذا في النهر والإمداد، وهذا عند محمد وعند أبي يوسف على الفور هما روايتان عن الإمام أيضا كذا في العناية قال في النهر: وينبغي أن يكون محل الخلاف في الإثم وعدمه حتى لو أداها بعد مدة كان مؤديا اتفاقا لا قاضيا. اهـ. قال الشيخ إسماعيل وفيه نظر أي لأن الظاهر من الفور أن يكون تأخيره قضاء.

قلت: لكن سيذكر الشارح في الحج الإجماع على أنه لو تراخى كان أداء مع أن المرجح أنه على الفور ويأثم بتأخيره فهو نظير ما هنا تأمل.

(قوله تنزيهاً) لأنه بطول الزمان قد ينساها، ولو كانت الكراهة تحريمية لوجبت على الفور وليس كذلك ولذاكره تحريماً تأخير الصلاتية عن وقت القراءة إمداد واستثنى من كراهة التأخير ما إذا كان الوقت مكروها كوقت الطلوع.

(قوله: ويكفيه إلخ) مكرر مع ما قدمه في قوله خلا التحريمة ونية التعيين."

(كتاب الصلاة ،باب سجود التلاوة ، 2/ 103-106-109،ط: سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144407100605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں