میری شادی کے تقریباً 24 سال ہوچکے ہیں،میرے سات بچے ہیں، جن میں سے تین بیٹیاں معذور ہیں، میرے شوہر غصے کے بہت تیز ہیں، ہر چیز پر روک ٹوک کرتے ہیں اور خاندان میں کسی کا ہمارے گھر میں آنا پسند نہیں کرتے،مجھے کئی دفعہ مار بھی چکے ہیں، گندی گندی گالی گلوچ کرتے ہیں، کھانے،پینے کے علاوہ اور ضروریا ت کا خیال نہیں رکھتے، نہ بچیوں کااور نہ ہی میرا مثلاً علاج معالجہ کے لیے،نہ کپڑوں وغیرہ کے لیے،میرے ہاتھ میں کوئی پیسہ بھی نہیں دیتے اور اب تو ذہنی مریض بن چکے ہیں،مطلب دنیا کی ہر بات معلوم اور یاد ہے،دین کی کسی بات پر کوئی توجہ نہیں دیتے،نماز روزہ ،زکوٰۃ اور دین کاہرحکم چھوڑا ہوا ہے،میرا ایک داماد عالم دین ہے، صرف اس سے ملاقات کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں،قرآن اپنی لوگوں کی بنائی ہوئی کتاب ہے ،بیت اللہ سے جنات اور جادو نکلتے ہیں ، کلمہ کا بھی انکار کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی انکار کرتے ہیں،اس صورت میں شریعت میرے بارے میں کیا کہتی ہے؟میرا اس کا ساتھ رہنا جائز ہے یا نہیں؟ میں ان کے نکاح میں ہو ں یا نہیں؟
وضاحت:
دنیا وی معاملات میں کہتا ہے کہ چینی 2 روپے کلو ہوجائے گی،زمینیں 1000 روپے میں فروخت ہوں گی،پوری دنیا پر جادو ہوچکا ہے،اب دنیا جادو سے نکل رہی ہے،بظاہر بات چیت سے ذہنی مریض معلوم نہیں ہوتے، لیکن ان باتوں کی وجہ سے اس کو ذہنی مریض کہاجا سکتا ہے، بات چیت سمجھتے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا شوہر اگر مذکورہ باتیں بطور عقیدہ نہیں بلکہ بیماری کی وجہ سے کہہ رہا ہو،تواس سے سائلہ اور اس کے شوہر کے نکاح میں کوئی فرق نہیں آیا،اگر سائلہ کا شوہر بالکل صحیح سالم ہو،ہوش وحواس اس کے برقرار ہوں، ذہنی مریض نہ ہو جیسا کہ سائلہ نے ذکر بھی کیا ہےاور یہ باتیں کہتا ہوکہ”قرآن اپنی لوگوں کی بنائی ہوئی کتاب ہے“ تو اس سے کلام اللہ کا اللہ کی کتاب ہونےکا انکار لازم آتا ہے اور سائلہ کے بقول اس کا شوہر کلمہ کا بھی انکار کرتاہے،تو کلام اللہ کےانکار کرنے سے اور کلمہ کےانکار کرنے سے انسان اسلام سے نکل جاتا ہے،سائلہ اور اس کے شوہر کا نکاح ختم ہوچکا ہے،سائلہ کے شوہر پر لازم ہے، مذکورہ عقائد سے توبہ کرے اور تجدید ایمان اور باہمی رضامندی سے تجدید نکاح دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں کرے،ورنہ عورت الگ ہونے کے بعد عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
الفقہ الاکبر میں ہے:
"وصفاته في الأزل غير محدثة ولا مخلوقة ومن قال إنها مخلوقة أو محدثة او وقف او شك فيهما فهو كافر بالله تعالى واالقرآن كلام الله تعالى في المصاحف مكتوب وفي القلوب محفوظ وعلى الألسن مقروء وعلى النبي عليه الصلاة والسلام منزل ولفظنا بالقرآن مخلوق وكتابتنا له مخلوقة وقراءتنا له مخلوقة والقرآن غير مخلوق."
(القول في القرآن، ص: 20، ط: مكتبة الفرقان)
متن العقيده الطحاوی میں ہے:
"وإن القرآن كلام الله منه بدا بلا كيفية قولا وأنزله على رسوله وحيا وصدقه المؤمنون على ذلك حقا وأيقنوا أنه كلام الله تعالى بالحقيقة ليس بمخلوق ككلام البرية فمن سمعه فزعم أنه كلام البشر فقد كفر وقد ذمه الله وعابه وأوعده."
(هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة، ص: 40، ط: المكتب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"هو لغة الراجع مطلقا وشرعا (الراجع عن دين الإسلام وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الإيمان) وهو تصديق محمد صلى الله عليه وسلم في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة وهل هو فقط أو هو مع الإقرار؟ قولان وأكثر الحنفية على الثاني والمحققون على الأول والإقرار شرط.
(قوله وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان) هذا بالنسبة إلى الظاهر الذي يحكم به الحاكم، وإلا فقد تكون بدونه كما لو عرض له اعتقاد باطل أو نوى أن يكفر بعد حين أفاده (قوله بعد الإيمان) خرج به الكافر إذا تلفظ بمكفر، فلا يعطى حكم المرتد نعم قد يقتل الكافر، ولو امرأة إذا أعلن بشتمه صلى الله عليه وسلم كما مر في الفصل السابق (قوله هو تصديق إلخ) معنى التصديق قبول القلب، وإذعانه لما علم بالضرورة أنه من دين محمد صلى الله عليه وسلم بحيث تعلمه العامة من غير افتقار إلى نظر واستدلال كالوحدانية والنبوة والبعث والجزاء، ووجوب الصلاة والزكاة وحرمة الخمر ونحوها. اهـ. ح عن شرح المسايرة (قوله وهل هو فقط) أي وهل الإيمان التصديق فقط، وهو المختار عند جمهور الأشاعرة وبه قال الماتريدي عن شرح المسايرة (قوله أو هو مع الإقرار) قال في المسايرة: وهو منقول عن أبي حنيفة، ومشهور عن أصحابه وبعض المحققين من الأشاعرة وقال الخوارج: هو التصديق مع الطاعة، ولذا كفروا بالذنب لانتفاء جزء الماهية وقال الكرامية: هو التصديق باللسان فقط فإن طابق تصديق القلب، فهو مؤمن ناج وإلا فهو مؤمن مخلد في النار. اهـ. ح قلت: وقد حقق في المسايرة أنه لا بد في حقيقة الإيمان من عدم ما يدل على الاستخفاف من قول أو فعل ويأتي بيانه."
(كتاب الجهاد، باب المرتد، 221/4، ط: سعید)
البحرالرائق ميں ہے:
"والإيمان التصديق بجميع ما جاء به محمد صلى الله عليه وسلم عن الله تبارك وتعالى مما علم مجيئه به ضرورة وهل هو فقط أو هو مع الإقرار قولان فأكثر الحنفية على الثاني والمحققون على الأول والإقرار شرط إجراء أحكام الدنيا بعد الاتفاق على أنه يعتقد متى طولب به أتى به فإن طولب به فلم يقر فهو كفر عناد والكفر لغة الستر وشرعا تكذيب محمد صلى الله عليه وسلم في شيء مما يثبت عنه ادعاؤه ضرورة وفي المسايرة ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة وأفعال تصدر من المتهتكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه إنما فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه."
(كتاب السير، باب أحكام المرتدين، 129/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101160
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن