بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن پاک اور اسلامی کتابوں پر مٹی جم جائے تو جھٹکنی سے جھاڑ سکتے ہیں؟


سوال

قرآن پاک اور اسلامی کتابوں پر مٹی جم جائے تو جھٹکنی یعنی  کپڑے کے جھاڑن سے جھاڑ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ دینی کتب میں قرآن وحدیث،تفسیر ، فقہ واصول فقہ وغیرہ کے مضامین ہوتے ہیں، اس لیے یہ ساری کتب ادب کی متقاضی ہیں،اس کے اٹھانے، رکھنے، صاف کرنے میں ،ادب کے پہلو کی رعایت رکھنے کی خوب تاکید آئی ہے ، اور  قرآن پاک اوردینی کتب کے آداب میں ایک ادب یہ بھی ہے کہ ان کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جائے یا ایسی جگہ  رکھا جاۓجہاں گرد وغبار کم سے کم پڑتی ہو ،اگر کچھ گرد وغبار پڑ بھی جائے تو احترام کے ساتھ صاف کپڑے    سے صاف کرلیا جاۓ،ایسا طریقہ اختیار کرنا   جس  سے بے ادبی اور بے احترامی کا پہلو  نظر آتا ہو جیسے عام چیزوں کی طرح قرآن اور  دینی کتب کو  بھی جھٹکنی سے جھٹکنا، یہ مناسب نہیں ہے۔نیز یاد رہے  کہ ادب کا تعلق عرف سے ہے، جس عمل کو معاشرہ میں ناگوار اور بے ادبی سمجھا جاتا ہو وہ بے ادبی شمار ہوگی ،ورنہ نہیں ۔

قرآن مجید میں ہے :

﴿ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فإنھامِن تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾(سورة الحج 32)

"ترجمہ :یہ بات بھی ہوچکی اور قربانی کے جانور کے متعلق اور سن لو کہ جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو ان کا یہ لحاظ رکھنا خدا تعالیٰ سے دل کے ساتھ ڈرنے سے ہوتا ہے ۔(از بیان القرآن )"

عمدۃ القاری شرح البخاری میں ہے :

"وفي (المنتهى) لأبي المعالي: استأدب الرجل بمعنى تأدب، والجمع أدباء، وعن أبي زيد: الأدب إسم يقع على كل رياضة محمودة يتخرج بها الإنسان في فضيلة من الفضائل، وقيل: الأدب استعمال ما يحمد قولا وفعلا، وقيل: الأخذ بمكارم الأخلاق، وقيل: الوقوف مع المستحسنات، وقيل: هو تعظيم من فوقك والرفق بمن دونك فافهم."

(كتاب الأدب، ج: 22، ص: 80 / 81 ط: دار الفکر)

بذل المجہود میں ہے: 

"الأدب:هو الطريقة الحسنة ‌في ‌المعاشرة وغيرها."

(أول كتاب ‌الأدب، ج:13، ص:205، ط: بیروت)

التعريفات میں ہے:

"الأدب: عبارة عن معرفة ما يحترز به عن جميع أنواع الخطأ."

 (باب الف،ج:1،ص: 15،ط:دارالکتب الاسلامی )

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة السادسة: العادة محكمة

وأصلها قوله عليه الصلاة والسلام {ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن} قال العلائي: لم أجده مرفوعا في شيء من كتب الحديث أصلا، ولا بسند ضعيف بعد طول البحث، وكثرة الكشف والسؤال، وإنما هو من قول عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه مرفوعا عليه أخرجه أحمد في مسنده.

واعلم أن اعتبار العادة والعرف يرجع إليه في الفقه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك أصلا."

(الفن الأول، القاعدۃ السادسة، ص: 79، ط: دار الكتب العلمية)

خطبات حکیم الامت میں ہے:

"ادب کا مدار عرف پر ہے، فقہاء نے اس کو خوب سمجھا ہے لا تقل لھما اف کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ حقیقت میں اس نہی کا ایذاء والدین سے منع کرنا ہے ، جہاں تافیف موجب ایذاء ہو وہاں حرام ہے اور اگر کسی وقت عرف بدل جائے اور تافیف موجب ایذاء نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔"

(خطبات  حکیم الامت، ج:9،ص:302،ط،ادارہ تالیفات اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں