بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید کو تکلفات کے ساتھ پڑھنا


سوال

آج کل مشقِ قرآن کے مقابلوں جو تلاوت کی جاتی ہے،مثلاً ایک سانس میں کئی  آیات پڑھ کر، پھر ایک لفظ یا ایک آیت کو کئی بار دہرا کر پھر واپس آکر شروع سے پڑھ لینا وغیرہ وغیرہ، کیا اس قسم کے تکلفات پیارے رسول اللّٰہ یا صحابہ کرام سے ثابت ہیں یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ مجید  کو  اس کی فصیح زبان میں  قواعدِ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے پڑھنا ضروری ہے، بے قاعدہ پڑھنے والا گناہ گار ہوگا، لہٰذا مخارج وصفات کی رعایت رکھتے ہوئے صاف تلفظ میں ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرے، خواہ ترتیل سے (خوب ٹھہر ٹھہر کے) پڑھے یا حدر کے ساتھ (قدرے روانی سے پڑھے)۔ باقی لہجے وغیرہ کے حوالے قرآنِ مجید کی تلاوت کا خاص طریقہ یا طرز نہیں ہے،  حدیث شریف میں  اہلِ عرب کے (بے تکلف) طرز پر  قرآنِ کریم پڑھنے کی ترغیب ہے، اب اختیار ہے کہ عرب کے علماء کا لہجہ اختیار کیا جائے یا مصری لہجے میں تلاوت کی جائے، البتہ بتکلف قرآن پڑھنے،  دکھلاوے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها) عطف تفسيري، أي: بلا تكلف النغمات من المدات والسكنات في الحركات والسكنات بحكم الطبيعة الساذجة عن التكلفات (وإياكم ولحون أهل العشق): أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين)، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم، قال الطيبي: اللحون جمع لحن وهو التطريب وترجيع الصوت، قال صاحب جامع الأصول: ويشبه أن يكون ما يفعله القراء في زماننا بين يدي الوعاظ من اللحون العجمية في القرآن ما نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم (وسيجيء) : أي سيأتي كما في نسخة (بعدي قوم يرجعون) بالتشديد، أي يرددون (بالقرآن) : أي يحرفونه (ترجيع الغناء) بالكسر والمد بمعنى النغمة (والنوح) بفتح النون من النياحة، والمراد ترديدا مخرجا لها عن موضعها إذا لم يأت تلحينهم على أصول النغمات إلا بذلك، قال الطيبي: الترجيع في القرآن ترديد الحروف كقراءة النصارى (لا يجاوز) : أي قراءتهم (حناجرهم) : أي طوقهم، وهو كناية عن عدم القبول والرد عن مقام الوصول، والتجاوز يحتمل الصعود والحدور، قال الطيبي: أي لايصعد عنها إلى السماء، ولا يقبله الله منهم، ولا يتحدر عنها إلى قلوبهم ليدبروا آياته ويعملوا بمقتضاه (مفتونة) بالنصب على الحالية، ويرفع على أنه صفة أخرى لقوم، واقتصر عليه الطيبي: أي مبتلى بحب الدنيا وتحسين الناس لهم (قلوبهم) بالرفع على الفاعلية، وعطف عليه قوله (وقلوب الذين يعجبهم شأنهم) بالهمز ويعدل: أي يستحسنون قراءتهم، ويستمعون تلاوتهم (رواه البيهقي في شعب الإيمان، ورزين في كتابه) وكذا الطبراني".

(كتاب فضائل القرآن ،4 / 1505،ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں