بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید کی آیت کو نیچے سے اوپر کی طرف لکھنا


سوال

ہماری  مسجد  کے  باہر کی جانب سے ستونوں پر چند آیات کریمہ کی کیلیگرافیاں لگانا طے ہوا، جن کی  حالت یہ ہوگی:

ا: حروف اور الفاظ کی ترتیب داہنے سے بائیں جانب نہیں، بلکہ نیچے سے اوپر کی جانب ہے۔ مثلاً  ’’وذكر اسم ربه‘‘  کو اس طرح لکھا گیا: نیچے:وذ، اس کے اوپر : كر، اس کے اوپر: ا، اس کے اوپر: سم۔

ب: حروف  اور  الفاظ کو  جس انداز سے لکھا گیا، اس کو   حافظ اور  عالم غور کرنے کے بعد سمجھ لیتا ہے،  مگر عام ناظرہ خواں  کے  لیے سمجھنا کٹھن ہے۔

ج: کیلیگرافی  کی تختی کے اندر بجلی  کی لائٹ  ہوگی،  جس کی وجہ سے رات کو  یہ حروف روشنی دار  دیکھا جائے گا اور ماحول میں بھی ہلکی  روشنی پھیلے  گی۔

لہذا حضرات  مفتی  صاحبان سے  گزارش ہے  کہ اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے ہمیں مطلع فرمائیں اور شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں!

جواب

قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اور  لوگوں کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے نازل ہوئی ہے،  اس کو اس انداز سے لکھنا  کہ اس کا مقصد ہی فوت ہوجائے درست نہیں ہے،لہذا صورتِ  مسئولہ میں آیت کریمہ کے لکھنے کا جو انداز ذکر کیا ہےاگر  اس انداز  سے  لوگوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں دشواری ہورہی ہو جس کی وجہ سے  قرآن کریم کا مقصد فوت ہورہاہےتو اس طرح لکھنا درست نہیں ہے اور اگر  پڑھنے سمجھنے میں دشواری نہ ہو تو  اس طرح لکھنا جائز ہے۔

الاتقان فی علوم القرآن میں ہے۔

"وقال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون} وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم.

وقد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها وقد بسطتها في تأليف مفرد.

فصل

القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء والوقوف عليه وقد مهد النحاة له أصولا وقواعد وقد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام

وقال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة

وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا

قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، ولا يخالفهم فيه ولا يغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكا عليهم."

(النوع السادس و السبعون :فی مرسوم الخط و آداب کتابته جلد ۴ ص : ۱۶۸،۱۶۹ ط:الھیئة المصریة العامة للکتاب)

الفتاوی الفقہیۃ الکبری میں ہے۔

"قال بعض أئمة القراء ونسبته إلى مالك؛ لأنه المسئول وإلا فهو مذهب الأئمة الأربعة. قال أبو عمرو: ولا مخالف له في ذلك من علماء الأمة، وقال بعضهم: والذي ذهب إليه مالك هو الحق إذ فيه بقاء الحالة الأولى إلى أن يتعلمها الآخرون، وفي خلافها تجهيل آخر الأمة أولهم، وإذا وقع الإجماع كما ترى على منع ما أحدث الناس اليوم من مثل كتابة الربا بالألف مع أنه موافق للفظ الهجاء، فمنع ما ليس من جنس الهجاء أولى، وأيضا ففي كتابته بالعجمية تصرف في اللفظ المعجز الذي حصل التحدي به بما لم يرد بل بما يوهم عدم الإعجاز، بل الركاكة؛ لأن الألفاظ العجمية فيها تقديم المضاف إليه على المضاف ونحو ذلك مما يخل بالنظم ويشوش الفهم. وقد صرحوا بأن الترتيب من مناط الإعجاز وهو ظاهر في حرمة تقديم آية على آية كتابة كما يحرم ذلك قراءة، فقد صرحوا بأن القراءة بعكس السور مكروهة وبعكس الآيات محرمة وفرقوا بأن ترتيب السور على النظم المصحفي مظنون، وترتيب الآيات قطعي. وزعم أن كتابته بالعجمية فيها سهولة للتعليم كذب مخالف للواقع والمشاهدة فلا يلتفت لذلك على أنه لو سلم صدقه لم يكن مبيحا لإخراج ألفاظ القرآن عما كتبت عليه، وأجمع عليها السلف والخلف."

(کتاب الطهارۃ ، باب النجاسة جلد ۱ ص : ۳۸ ط : المکتبة الاسلامیة)

فضائل القرآن لابن کثیر میں ہے:

"قلت": والذى كان يغلب على زمان السلف الكتابة المتكوفة، ثم هذبها أبو على بن مقلة الوزير، وصار له فى ذلك نهج وأسلوب فى الكتابة، ثم قربها على بن هلال البغدادى المعروف بـ "ابن البواب"، وسلك الناس وراءه، وطريقته فى ذلك واضحة جيدة."

(کتابة عثمان رضي اللہ عنه للمصاحف ص : ۹۱ ط : مکتبة ابن تیمیة)

الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وهل تجوز كتابته بقلم غير العربي؟ قال الزركشي: لم أر فيه كلاما لأحد من العلماء.

قال: "ويحتمل الجواز، لأنه قد يحسنه من يقرأ بالعربية، والأقرب المنع كما تحرم قراءته بغير"، لسان العرب، ولقولهم: القلم أحد اللسانين والعرب لا تعرف قلما غير العربي وقد قال تعالى: {بلسان عربي مبين} انتهى."

(النوع السادس و السبعون :فی مرسوم الخط و آداب کتابته جلد ۴ ص : ۱۸۳ ط : الھیئة المصریة العامة للکتاب)

امداد الفتاوی میں ہے:

"الجواب:ناگری ہو یا انگریزی ہر دو خط جس میں مصحف عثمانی کی رعایت نہ ہو سکے اس میں قرآن کا لکھنا کسی طرح جائز نہیں کیونکہ کتابت مصحف میں رعایت رسم خط عثمانی  واجب ہے رہے وہ خط جن میں رعایت رسم خط مذکور ہوسکتی ہے ، جیسے فارسی ، یا اردو نستعلیق و امثالہ ان میں قرآن کا لکھنا مختلف بین القولین ہے ، مگر اقرب اور راجح یہ ہے کہ ایسے خطوط میں بھی پورا مصحف لکھنا نا جائز ہے ، ایک دو آیت اتفاقیہ لکھنے کا مضائقہ نہیں ، الغرض الفاظ قرآنی کو صرف عربی خط ہی میں لکھنا چاہیے ، ترجمہ و تفسیر کسی دوسری زبان میں اور دوسرے خط میں لکھنے کا مضائقہ نہیں۔"

(قرآن مجید ، قبلہ و دیگر قابل تعظیم اشیاء کےاحکام جلد ۴ ص:۴۴ ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

امداد الاحکام میں ہے:

"رہی وہ خط جن میں رعایت رسم خط مذکور ہوسکتی ہے جیسے فارسی یا اردو نستعلیق وامثالہ ان میں قرآن کا لکھنا مختلف فیہ بین القولین ہے ، مگر اقرب اور راجح یہ ہے کہ ایسے خطوط میں بھی پورا مصحف لکھنا ناجائز ہے ، ایک دو آیت اتفاقیہ لکھنے کا مضائقہ نہیں ۔"

(کتاب العلم جلد ۱ص:۲۴۰ ط:مکتبۃ دارالعلوم کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے۔

"مصحف عثمانی کے رسم خط کی رعایت و متابعت لازم و ضروری ہے اس کے خلاف لکھنا اگرچہ وہ عربی رسم خط میں ہی کیوں نہ ہو ناجائز اور حرام ہے اور اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے ۔"

(باب یتعلق بالقرآن جلد ۳ ص:۵۰۸)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں