قرآن کو قرآن کیوں کہتے ہیں ؟
قرآن کو کئی وجوہات سے قرآن کہا جاتا ہے، مثلا:
1: قرآن’’قرأ‘‘ سے مأخوذ ہے جس کے معنی ’’قراءت‘‘ کرنے (تلاوت کرنے) کے ہیں ؛ چوں کہ قرآن پاک کی قرأت (تلاوت) کی جاتی ہے؛ اس لیے اس کو ’’قرآن‘‘ کہتے ہیں۔
2: قرآن ’’قرن‘‘ سے مأخوذ ہے جس کے معنی جمع کرنے کے ہیں؛ چنانچہ قرآن کو ’’قرآن‘‘ اس لیے کہتے ہیں؛ کیوں کہ اس نے تمام آیات، سورتوں، وعدوں، وعیدوں، قصوں،احکامات اور ممنوعات وغیرہ کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے۔
3:قرآن ’’قرن‘‘ سے ہے بمعنیٰ ملانا اور اس کی آیات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں؛ اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں۔
تاج العروس میں ہے:
"قرأ : (القُرْآن ) هو ( التنزيلُ ) العزيزُ ، أَي المَقروءُ المكتوب في المَصاحف ، وإِنما قُدِّم على ما هو أَبْسَطُ منه لشرفه ."
(قرأ، ج: 1، ص: 363، ط: دار الهداية)
لسان العرب - (1 / 128):
"( قرأ ) القُرآن التنزيل العزيز، وانما قُدِّمَ على ما هو أَبْسَطُ منه لشَرفه قَرَأَهُ يَقْرَؤُهُ ويَقْرُؤُهُ الأَخيرة عن الزجاج قَرْءاً وقِراءة وقُرآناً الأُولى عن اللحياني فهو مَقْرُوءٌ أَبو إِسحق النحوي. يُسمى كلام اللّه تعالى الذي أَنزله على نبيه صلى اللّه عليه وسلم كتاباً وقُرْآناً وفُرْقاناً ومعنى القُرآن معنى الجمع وسمي قُرْآناً لأَنه يجمع السُّوَر فيَضُمُّها."
(فصل القاف، ج: 1، ص: 128، ط: دار صادر)
الصحاح تاج اللغہ و صحاح العربیہ میں ہے:
"وقَرَأتُ الشيء قرآنا، جمعته وضممت بعضه إلى بعض. وقرأت الكتاب قراءة وقرآنا، ومنه سمِّي القرآن. وقال أبو عبيدة: سمِّي القرآن لأنه يجمع السُّوَرَ فيضمها."
(قرأ، ج: 1، ص: 65، ط: دار العلم للملايين بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102339
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن