بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کا حکم


سوال

1)کیا بچوں کو مسجد میں قرآن پڑھا کر   ماہانہ اجرت(فیس)لینا درست ہے؟

2)کیا یہ شرط لگانا قاری صاحب کا  درست ہے کہ ہر مہینہ کی اجرت ہر مہینہ پڑھانے سے پہلے لوں گا؟

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں مسجد میں مستقلاً تنخواہ لے کر تعلیم دینا مکروہ ہے ،اس لیے بہتر یہی ہے کہ بچوں کو تعلیم  کے لیے الگ جگہ کا انتظام کیا جائے ،البتہ اگر کوئی دوسری جگہ نہ ہو تو مجبوراً  مسجد میں بچوں کو دینی تعلیم دینےاور اس پر تنخواہ لینے  کی گنجائش ہے،مگر بچہ اتنے چھوٹے نہ ہوں جن کو پاکی ،نا پاکی کی تمییز نہ ہو ،مثلاً گندے پیر مسجد میں آجائیں  یا پیشاب وغیرہ کر دیں،اور یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد کے  احترام کے خلاف بھی کوئی کام نہ ہو ،کہ بچوں کو سخت الفاظ اور کڑک آواز سے ڈاٹنا ،مارنا یا سزا دینا وغیرہ ۔

2)ہر ماہ کے شروع میں تنخواہ لینے کی شرط لگانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ،اور  اگر اجارہ اس پر منعقد ہو جاتا ہے تو قاری صاحب ہر ماہ کے شروع میں تنخواہ کے مستحق ہو ں گے ۔

فتاوی قاضی خان میں ہے :

"ويكره أن يخيط في المسجد لأنه أعد للعبادة دون الاكتساب وكذا الوراق والفقيه إذا كتب باجرة أو معلم إذا علم الصبيان باجرة. وإن فعلوا بغير أجر فلا بأس به۔"

(قاضی خان، کتاب الطہارۃ، فصل فی المسجد ،ج:1،ص:43،مکتبہ زکریا جدید)

فتاوی شامی میں ہے :

"قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة۔"

(ردالمحتار علی الدرالمختار،فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد، ج:6،ص:428،ط:سعید)

فتاوی بزازیہ میں ہے :

"معلم الصبیان بأجر لو جلس فیہ لضرورۃ الحر لا بأس بہ، وکذا التعلیم  إن بأجرکرہ  إلا للضرورۃ وإن حسبۃ لا۔"

(بزازیۃ علی ہامش الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ،ج۔:4،ص:82،ط:کوئٹہ)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي. وكما يجب الأجر باستيفاء المنافع يجب بالتمكن من استيفاء المنافع إذا كانت الإجارة صحيحة حتى إن المستأجر دارا أو حانوتا مدة معلومة ولم يسكن فيها في تلك المدة مع تمكنه من ذلك تجب الأجرة، كذا في المحيط"

(کتاب الاجارۃ،باب متی تجب الاجرۃوما تیعلق بہ من الملک وغیرہ،ج:4،ص:412،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں