بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز نہیں


سوال

ایصال ثواب کیلئے میت کے ورثا تیسرے دن لوگوں کو کھانے پہ بلائے پھر ایک ایک پارہ تقسیم کرکے ختم قرآن کریں اس کے بعد طلباء حفاظ اور مولویوں  میں  روپے تقسیم کریں آخر میں کھانا بھی کھلائے اس طرح ختم کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ایصال ثواب کے لئے کی گئی قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو ، ورنہ قرآن پڑھنے والوں  کو ثواب نہیں ملے گا ، میت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟قرآن خوانی کے لئے دعوت  کرنا اور صلحاء وقراء کو ختم کے لئے جمع کرنا  مکروہ ہے اور اس پر اجرت لینا  جائز نہیں ہے، کیوں  کہ یہ تلاوت قرآن  پر اجرت ہے، جو کہ ناجائز ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں   میت کے ورثاء کا تیسرے دن دعوت کا اہتمام کرکے علماء  وطلباء کو قرآن خوانی پر بلاکر  کھانا کھلانا اور پیسے دینا جائز نہیں ۔

ترمذی شریف میں ہے:

عن عمران بن حصين : أنه مر على قاص يقرأ ثم سأل فاسترجع ثم قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من قرأ القرآن فليسأل الله به فإنه سيجيء أقوام يقرؤون القرآن يسألون به الناس۔

(ج:5/ص:179/ط:داراحیاء التراث العربی)

شعب الایمان میں ہے:

قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّهُ: " سَيَجِيءُ زَمَانٌ يُسْأَلُ فِيهِ بِالْقُرْآنِ فَإِذَا سَأَلُوكُمْ فَلَا تُعْطُوهُمْ "۔

(فصل فی ترک قرآۃ القرآن فی المساجد/ج:4/ص:199/ط:مکتبۃ الرشد)

مصنف بن ابی شیبہ میں ہے:

"عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَعْقِلٍ : أَنَّهُ صَلَّى بِالنَّاسِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ بَعَثَ إلَيْهِ عُبَيدُ اللهِ بْنُ زِيَادٍ بِحُلَّةٍ وَبِخَمْسِمِئَةِ دِرْهَمٍ فَرَدَّهَا وَقَالَ : أَخْبَرَنَا لاَ نَأْخُذُ عَلَى الْقُرْآنِ أَجْرًا"۔

(فی الرجل یقوم بالناس فیعطی.../ج:2/ص:400/ط:بیروت)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

ومن ذلک مسالۃ الاستئجار علی تلاوۃ القرآن المجردۃ ....فقداتفقت النقول عن ائمتنا  الثلاثۃ  ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد  رحمھم اللہ) ان الاستئجار علی الطاعات باطل......وقدا طبقت المتون والشروح والفتاوی علی نقلھم بطلان الاستئجار   علی الطاعات  الا فیما ذکر ،وعللوا ذلک بالضرورۃ ،وھی خوف  ضیاع الدین.....

(ص:14/ط:بشری)

المحیط البرھانی میں ہے:

وكذا الاستئجار على الحج والغزو وسائر الطاعات لا يجوز، لأنه لو جاز يوجب على القاضي جبر الأجير عليها ولا وجه إليه، لأن أخذها لا يجبر على الطاعات.

(الفصل الخامس  عشر فی بیان مایجوز.../ج:8/ص:81/ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں