بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کے انتقال کے بعد طلبہ کو بلاکر قرآن خوانی کرانا


سوال

ہمارے ملک میں یہ عام روایت ہے کے کسی کے فوت ہونے کے بعد مساجد سے طلبہ کو بلوا کر قران پاک پڑھوایا جاتا ہے، کیا اس کا اجر اس شخص کو جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ میں ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ اور خاص دن متعین نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی شخص جب  چاہے حسبِ استطاعت کوئی نیک عمل کرکے اس کا ایصالِ ثواب کرسکتا ہے، باقی کسی کے انتقال کے بعد مسجد یا مدرسہ سے طلبہ کو بلاکر گھر میں اجتماعی قرآن خوانی کرانے کے لیے چند امور کی رعایت کرنا ضروری ہے:

1. قرآن خوانی کی اجرت کا لین دین نہ ہو، اور نہ ہی پڑھنے والوں کو کھلانے پلانے کا التزام کیا جائے۔

2.کسی دن مثلاً  انتقال کے تیسرے دن، پھر  ساتویں، دسویں، چالیسویں، سالانہ وغیرہ،جیسا کہ عوام میں برسی، عرس اور چہلم وغیرہ کے نام سے معروف ہے، یا تاریخ مثلاً  پندرہویں شعبان، دسویں محرم وغیرہ کی تخصیص نہ کی جائے۔

3.کسی ہیئت کی تخصیص نہ ہو، مثلاً کھانا سامنے رکھ کر چاروں قل اور پنج آیات پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا، یا کسی دوسری سورت مثلا سورت اخلاص، سورت انعام وغیرہ کی تخصیص کرنا۔

4. طلبہ کے علاوہ دیگر لوگوں کی قرآن خوانی میں شرکت برادری  کے دباؤ یا بدنامی کے ڈر سے نہ ہو، اور شرکت نہ کرنے والوں پر طعن و طنز نہ کیا جائے۔

5. قرآن خوانی میں شرکت کرنے والوں کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، کھانا پینا، نمود و ریا، شہرت و تفاخر اور حصولِ جاہ و منصب نہ ہو۔

6. قرآن کی تلاوت صحیح کی جائے، جلدی جلدی قرآن مکمل کرنے کی غرض سے غلط نہ پڑھا جائے۔

لہذا اگر ان شرائط کو ملحوط رکھتے ہوئے قرآن خوانی کی جائے تو اس کا ثواب میت کو بخشا جاسکتا ہے اور اگر اجرت لے کر قرآن خوانی کی جائے تو پڑھنے والے کو اس کا ثواب نہیں ملتا چہ جائے کہ اس کا ثواب میت کو بخشا جائے۔

فتح القدیر میں ہے:

"الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة، لما روي «عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ» جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته.

و ما رواه الدارقطني «أن رجلا سأله - صلى الله عليه وسلم - فقال: كان لي أبوان أبرهما حال حياتهما فكيف لي ببرهما بعد موتهما؟ فقال له - صلى الله عليه وسلم -: إن من البر بعد الموت أن تصلي لهما مع صلاتك، وتصوم لهما مع صيامك».

و ما رواه أيضا عن علي عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من مر على المقابر وقرأ {قل هو الله أحد}إحدى عشرة مرة ثم وهب أجرها للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات».

و«عن أنس أنه سأله - صلى الله عليه وسلم - فقال يا رسول الله إنا نتصدق عن موتانا ونحج عنهم وندعو لهم فهل يصل ذلك إليهم؟ قال: نعم، إنه ليصل إليهم وإنهم ليفرحون به كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أهدي إليه».

وعنه - صلى الله عليه وسلم - «اقرءوا على موتاكم يس».

فهذه الآثار وما قبلها وما في السنة أيضا من نحوها عن كثير قد تركناه لحال الطول يبلغ القدر المشترك بين الكل، وهو أن من جعل شيئا من الصالحات لغيره نفعه الله به مبلغ التواتر، وكذا ما في كتاب الله تعالى من الأمر بالدعاء."

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، 3/ 142 ،143، ط:دار الفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"فمن جملة كلامه قال ‌تاج ‌الشريعة ‌في ‌شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون."

(کتاب الإجارہ، باب الإجارہ الفاسدہ، مطلب فی الاستئجار علی الطاعات،6/ 56، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره.وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی الثواب علی المعصیة،2/ 240، ط:سعید)

الاعتصام للشاطبي  میں ہے:

"وقوله في الحد: " تضاهي الشرعية " يعني أنها تشابه الطريقة الشرعية من غير أن تكون في الحقيقة كذلك، بل هي مضادة لها من أوجه متعددة:

منها: وضع الحدود كالناذر للصيام قائما لا يقعد ... ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة ... ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة."

(ج:1، ص:53، الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں