بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن خوانی کا حکم


سوال

میت کی ابھی تک تدفین نہ ہوئی ہو اور میت بھی کسی اور مقام پر ہو تو اجتماعی قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میت کی تدفین سے پہلے  یا بعد میں اگر خلوص کے ساتھ قرآن پڑھ کر میت کے لیے ایصائل ثواب کرے   تو شرعاً  کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اجتماعی قرآن خوانی کے لیے  شرط یہ   ہے کہ جو افراد قرآن خوانی میں  شریک ہو ں وہ اخلاص کے ساتھ شریک ہوں،ریاکاری اور دکھاوا مقصود نہ ہو اور  جو شریک نہ ہوان پر نکیر نہ کی جاۓ  اور قرآن خوانی پر کسی قسم کا معاوضہ نہ دیا جاۓ اور نہ ہی لیا جاۓ، اور کھانے ،پینے کا انتظام بھی نہ  کیا جاۓ، نیز اجتماعی قرآنی خوانی کو اور اس میں شرکت  کو  لازم  بھی نہ سمجھا جاۓ،لہذا ان  تمام شروط کی رعایت کے ساتھ اجتماعی قرآنی خوانی  جائز ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ من القرآن ما تيسر له  من الفاتحة............ ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلي فلان أو إليهم."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، 243/2، ط:سعيد)

بدئع الصنائع ميں ہے:

"من ‌صام ‌أو ‌صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة وقد صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» - صلى الله عليه وسلم-."

(كتاب الحج، فصل نبات الحرم،212/2، ط:دار الكتب العلمية)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"بل الضرر صار في الاستئجار عليه،حيث صار القرآن مكسباّ وحرفة يتجر بها، وصار القارئ منهم لايقرأ شيئاّ لوجه الله تعالى خالصاّ، بل لايقرأ إلا للأجرة، وهو الرياء المحض الذي هو ارادة العمل لغير الله تعالى،فمن أين يحصل له الثواب الذي طلب المستأجر أن يهديه لميتة؟!"

(لزوم المراجعة إلي المأخذ الأصلي و عدم الإعتماد على المأخذ الثانوي، ص 15، ط: مكتبة البشرى) 

فتاوی شامی میں ہے:

 "الحاصل ان اتخاذ الطعام عند قرأة القرآن لأجل الأكل  يكره."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، مطلب في كراهية الضيافة من أهل الميت، 243/2، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں