بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کےوسیلےسے جرم ثابت کرنا


سوال

 جناب میرا تعلق بگٹی ٹرائب سے ہے ،ہمارا  نواب اکبر بگٹی زنا، قتل، اور بڑے بڑے چوری ڈکیتی کے فیصلے عدمِ گواہان کی بنا پر قرآن کے وسلیے سے آگ کے ذریعے کرتے تھے، سات قدم کا گھڑا کھود کر اس میں انگارے ڈال کر ان پر ملزم کو سات قدم انگاروں کے اندر چلایا جاتا ،اگر وہ جل جاتا تو مجرم قراردیاجاتا،اگر نہیں  جلتا،تو باعزت بری ہوجاتا۔ اب سوال یہ  ہے کہ آگ کا ملزم کو نہ جلانا قرآن کی حکمت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نےجرم کےثبوت کے فقط دو ہی طریقےبتلائےہیں :شرعی شہادت یامجرم  کا اپنااقرار ،جب  تک کسی کاجرم  ان دوطریقوں میں سےکسی ایک طریقےپرثابت نہ ہوتواس کوسزادیناجائزنہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل کےقبیلےکا ملزم پرجرم ثابت کرنےکےلیےمذکورہ طریقہ اختیارکرنااورپھرخودسےسزادیناازروئےشرع ناجائزہے،اس لیے کہ شریعتِ مطہرہ نےسزائیں جاری کرنےکااختیارحاکم وقت یااس کےنائب کودیاہے،لہذامذکورہ طریقےسےقرآن کریم کے وسیلے کےذریعےفیصلہ کرنااو اس کوقرآن کی حکمت قراردینا غلط  ہے۔

الدرمع الرد میں ہے:

" (و يثبت بشهادة أربعة) رجال (في مجلس واحد) فلو جاءوا متفرقين حدوا (ب) لفظ (الزنا لا) ... (و يثبت) أيضًا (بإقراره)."

(4/ 7۔8 ،ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"و ثبت ذلك عند الإمام كما سيتضح (فيقطع إن أقر بها مرة) وإليه رجع الثاني (طائعا) فإقراره بها مكرها باطل ...قوله: و ثبت ذلك إلخ) لايصح كون ذلك جزءًا من التعريف بل هو شرط للقطع كما أفاده بقوله فيقطع إن أقر مرة أو شهد رجلان."

(کتاب الحدود،ج،4/ص، 85،ط:ایچ،ایم،سعید)

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"قال: و لايقتل القاتل إلا بثلاث خصال: أحدها أن يقر بالقتل أو يشهد عليه رجلان."

(ج،2/ص، 665،دارالفرقان)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا."

(کتاب الحدود ،فصل فی جوازإقامة الحدود،7 /57،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں