بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا حکم


سوال

قاضی اگر قرآن کے مطابق فیصلہ نہ کرے کیا وہ کافر ہو جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی  قاضی قرآن اور شریعت کے فیصلہ کو حقیر یا غلط یا خلافِ  مصلحت یا خلافِ  تہذیب سمجھ کر انکار کردے اور قانون شریعت میں تغیر و تبدل کر کے اپنی طرف سے نیا حکم تجویز کر ے تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہےاور اگر  دل میں حکم خداوندی کی تصدیق اور اس کی عظمت اور اس کی حقانیت کا اعتراف موجود ہے، محض غلبہ نفس یا کسی دنیاوی مجبوری اور معذوری کی بنا  پر  بادل نخواستہ حکمِ  خدا کے خلاف فیصلہ کردے تو وہ کافر نہ ہوگا،  بلکہ  فاسق ظالم اور  گناہ گار ہوگا۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"هي عامة في كل من لم يحكم بما أنزل الله من المسلمين واليهود والكفار أي معتقدا ذلك ومستحلا له، فأما من فعل ذلك وهو معتقد أنه راكب محرم فهو من فساق المسلمين، وأمره إلى الله تعالى إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له. وقال ابن عباس في رواية: ومن لم يحكم بما أنزل الله فقد فعل فعلا يضاهي أفعال الكفار"۔

(سورۃ المائدہ، آیت:44، ص:190، ج:6، ط: دار الکتب المصریه)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وأجيب بأن الآية متروكة الظاهر، فإن الحكم وإن كان شاملا لفعل القلب والجوارح لكن المراد به هنا عمل القلب وهو التصديق، ولا نزاع في كفر من لم يصدق بما أنزل الله تعالى، وأيضا إن المراد عموم النفي بحمل ما على الجنس، ولا شك أن من لم يحكم بشيء مما أنزل الله تعالى لا يكون إلا غير مصدق ولا نزاع في كفره"۔

(سورۃ المائدہ، آیت :44، ص:314، ج:3، ط:دار الکتب العلمیة)

تفسیر معار ف القرآن مولانا ادریس کاندہلوی میں ہے:

"علمائے اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حکم خداوندی کو حقیر یا غلط یا خلاف مصلحت یا خلاف تہذیب سمجھ کر انکار کردے اور قانون شریعت میں تغیر و تبدل کر کے اپنی طرف سے نیا حکم تجویز کردے جیسا کہ یہود نے حکم رجم کے مقابلہ میں اپنی رائے سے ایک نیا حکم تیار کر لیا تھا تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے اور اگر دل میں حکم خداوندی کی تصدیق اور اس کی عظمت اور اس کی حقانیت کا اعتراف موجود ہے اور محض غلبہ نفس یا کسی دنیاوی مجبوری اور معذوری کی بناء پر بادل نخواستہ حکم خدا کے خلاف فیصلہ کردے تو وہ کافر نہ ہوگا بلکہ فقط گناہ گار ہوگا۔ "

(سورۃ المائدہ، آیت 44، ص:506، ج:2، ط:مکتبہ معارف) 

مجمع الانھر میں ہے:

"أو قال اذهب معي إلى الشرع فقال لا أذهب حتى بالبيدق كفر إذا عاند الشرع بخلاف ما إذا أراد دفعه في الجملة عند المخاصمة أو قصد أنه صحح الدعوى فيستحق المطالبة أو تعلل لأن القاضي ربما لا يكون جالسا في المحكمة فلا يكفر أما لو قال إلى القاضي فقال لا أذهب فلا يكفر"۔

(باب المرتد، ص:696، ج:1، ط:دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں