بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم میں حج تمتع کا ذکر


سوال

قرآن کریم میں حج تمتع کا ذکر کس سورت میں ہے؟ براہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

قرآنِ کریم میں حج تمتع کاذکر سورۃ البقرۃ کی آیت:ایک سو چھیانوے(196) میں ہے، جیسے کہ مندرجہ ذیل ہے:

"{وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ }[البقرة: 196]."

ترجمہ:"اور  حج وعمرہ کو اللہ تعالیٰ کے واسطے پورا پورا ادا کیا کرو۔ پھر اگر روک دیے جاؤ تو قربانی کا جانور جو کچھ میسر ہو  اور اپنے سروں کو اس وقت تک مت منڈاؤ جب تک کہ قربانی اپنے موقع پر نہ پہنچ جاوے، البتہ اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو  تو  فدیہ  دیدے  روزے سے یا  خیرات دینے سے یا  ذبح کردینے سے پھر جب تم امن کی حالت میں ہو  تو جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملاکر منتفع ہوا ہو  تو جو کچھ قربانی میسر ہو  پھر جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو  تین دن کے روزے ہیں ،حج میں اور سات ہیں جبکہ حج سے تمہارے لوٹنے کا وقت آجاوے یہ پورے دس ہوئے۔ یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے اہل  مسجد حرام  کے قرب  میں رہتے ہوں  اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو  اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ  سزائے سخت دیتے ہیں۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:196، ترجمہ:بیان القرآن)

تفسیرِ روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم میں ہے:

"فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ الفاء واقعة في جواب- إذا والباء وإلى- صلة التمتع، والمعنى فمن استمتع وانتفع بالتقرب إلى الله تعالى بالعمرة إلى وقت الحج أي قبل الانتفاع بالحج في أشهره، وقيل: الباء سببية ومتعلق التمتع محذوف أي بشيء من محظورات الإحرام ولم يعينه لعدم تعلق الغرض بتعيينه، والمعنى ومن استمتع بسبب أوان العمرة والتحلل منها باستباحة محظورات الإحرام إلى أن يحرم بالحج، وفيه صرف التمتع عن المعنى الشرعي إلى المعنى اللغوي، والثاني هو الانتفاع مطلقا، والأول هو أن يحرم بالعمرة في أشهر الحج ويأتي بمناسكها ثم يحرم بالحج من جوف مكة ويأتي بأعماله ويقابله القرآن وهو أن يحرم بهما معا ويأتي بمناسك الحج فيدخل فيها مناسك العمرة".

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:196، ج:1، ص:478، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں