بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم بھولنے کے بعد یاد کرنے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ ایک آدمی ہے اس نے قرآن پاک مکمل حفظ کیا حفظ کرنے بعد اس نے کچھ سال قرآن کو پڑھا ہی نہیں اور وہ قرآن اس کو بھول گیا اور اس طرح بھول گیا کہ اوپر دیکھ کر پڑھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے تو اب اس کو اس کا گناہ ہوگا یا نہیں اور اس پر اس قرآن کو دوبارہ یاد کرنا لازم ہے یا نہیں؟ یا اوپر دیکھ کر صحیح پڑھ سکتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے دوبارہ یاد کرنا لازم ہے یا نہیں اور اس کو گناہ ہوگا یا نہیں ؟ یا مکمل حفظ نہیں کیا بلکہ کچھ سپارے حفظ کئے ہیں تو اس آدمی کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم مکمل یا کچھ حصہ یاد کرنے کے بعد جان بوجھ کر بھلا دینا انتہائی سخت گناہ ہے اور ایسے شخص کے بارے میں حدیث شریف میں سخت وعیدیں آئی ہیں،  اور یاد کرنے کے بعد( چاہے مکمل قرآن یاد کیا ہو یا کچھ پارے) جو شخص غفلت اور لا اُبالی پن کی وجہ سے بھول جائے وہ احادیث کی وعید کا مستحق ہے،اسے چاہیے کہ جلد از جلد دوبارہ یاد کرنا شروع کرے،  تاکہ وہ ان وعیدات سے بچ سکے۔

باقی ناظرہ یاد رہنے کی صورت میں بھی وہ شخص احادیث میں وارد ہونے والی وعید کا مستحق ہوگا یا نہیں؟  اس بارے میں فقہائے احناف کی تصریحات کی رو سے وہ شخص وعید کا مستحق نہیں ہوگا،  بلکہ وعید کا مستحق وہ شخص ہوگا جو ناظرہ بھی بھول جائے۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن سعد بن عبادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم."

(كتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الوتر، باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه، ج: 1، ص: 493، رقم: 1474، ط: بشري)

ترجمہ:" حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآنِ  کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا/کوڑھی ہونے کی حالت میں  ہو گا"۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت على ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل ثم نسيها."

(‌‌كتاب الصلاة، باب في كنس المسجد، ج: 1، ص: 235، رقم: 461، ط: بشري)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا حفظ الإنسان القرآن ثم نسيه فإنه يأثم، وتفسير النسيان أن لا يمكنه القراءة من المصحف."

ترجمہ: "اگر کسی نے قرآن حفظ کیا پھر بھول گیا تو گناہ گار ہوگا، اور بھول جانے کی تفسیر یہ ہے کہ مصحف سے دیکھ کر نہ پڑھ سکے"

(كتاب الكراهية، الباب الرابع في الصلاة والتسبيح ورفع الصوت عند قراءة القرآن، ج: 5، ص: 317، ط: رشيدية)

'حلبی کبیر' میں ہے:

"ومن تعلم القرآن ثم نسيه يأثم لقوله عليه السلام: عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت على ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل ثم نسيها."

(تتمات، القراءة خارج الصلاة، ج: 2، ص: 342، ط: دار الكتب العلمية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن سعد بن عبادة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه "، أي بالنظر عندنا، وبالغيب عند الشافعي، أو المعنى ثم يترك قراءته نسي أو ما نسي (إلا لقي الله يوم القيامة أجذم) ، أي: ساقط الأسنان، أو على هيئة المجذوم، أو ليست له يد، أو لا يجد شيئا يتمسك به في عذر النسيان، أو ينكس رأسه بين يدي الله حياء وخجالة من نسيان كلامه الكريم وكتابه العظيم، وقال الطيبي: أي: مقطوع اليد من الجذم وهو القطع: وقيل: مقطوع الأعضاء، يقال: رجل أجذم إذا تساقطت أعضاؤه من الجذام، وقيل: أجذم الحجة، أي: لا حجة له ولا لسان يتكلم به، وقيل: خالي اليد عن الخير (رواه أبو داود، والدارمي) وروى أبو داود والترمذي أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: («عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت علي ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن، أو آية أوتيها رجل ثم نسيها»)."

(كتاب فضائل القرآن، باب آداب التلاوة ودروس القرآن، الفصل الثاني، ج: 4، ص: 700، ط: المكتبة التجارية)

فتاوى الرملي میں ہے:

"(سئل) عمن نسي القرآن هل يجب عليه حفظه أم لا فإن قلتم بوجوبه فهل تركه كبيرة وهل يفرق بين البالغ وغيره؟.

(فأجاب ) بأنه إن نسيه وهو بالغ تهاونا وتكاسلا كان نسيانه كبيرة ويجب عليه حفظه إن تمكن منه للخروج عن المعصية."

(باب في مسائل شتي، ج: 4، ص: 374، ط: المكتبة الاسلامية)

(فتاوی محمودیہ، باب مایتعلق بالقرآن،  ج: 3، ص: 516، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

(فتاوی دار العلوم دیوبند، آداب قرآن شریف،  ج: 14، ص: 264، ط: دار الاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں