بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کا لغوی معنی


سوال

قرآن شریف کا لغوی معنیٰ کیا ہے؟

جواب

 اہلِ لغت نے قرآن کے لفظی (لغوی) معنیٰ میں مختلف اقوال بیان کیے ہیں،جن ميں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

1:  قرآن "قرأ"سے مأخوذ ہے ،جس کے معنی "قراءت" کرنے اور پڑھنے کے  ہیں ؛ قرآن کی  چوں کہ قرات اور  تلاوت کی جاتی ہے، اس لیے اس کو بھی قرآن کہتے ہیں ۔

2:قرآن "قرن "بمعنی ملانے  سے ماخوذ ہے، تو قرآن کو اس لیے قرآن کہتے ہیں کہ اس کی آیات بھی ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔

3:قرآن"قرنت الشيء بالشيء"سے    مشتق ہے،تو چوں کہ قرآن کریم میں بھی سورتیں آیات اور حروف آپس میں ملے ہوئے ہیں،اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں۔

البرہان فی علوم القرآن میں ہے:

"و قيل: سمي قرآنا لأن القراءة عنه والتلاوة منه وقد قرءت بعضها عن بعض."

(مقدمۃ المؤلف،‌‌النوع الخامس عشر: معرفۃ أسماءواشتقاقاتہا أسماء القرآن،ج:1،ص:277،داراحیاء الکتب العربیۃ)

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے:

"و قال قوم منهم الأشعري: هو مشتق من قرنت الشيء بالشيء إذا ضممت أحدهما إلى الآخر وسمي به لقران السور والآيات والحروف فيه."

(مقدمۃ المؤلف،‌‌النوع السابع عشر: في معرفة أسمائه وأسماء سوره،ج:1،ص:182،ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

الصحاح  فی اللغة للجوہری میں ہے:

"و قرأت الشيء قرآنا: جمعته و ضممت بعضه إلى بعض، و منه قولهم: ما قرأت هذه الناقة سلى قط، و ما قرأت جنينًا، أي لم تضم رحمها على ولد. و قرأت الكتاب قراءة و قرآنا، و منه سمي القرآن. و قال أبو عبيدة: سمي القرآن؛ لأنه يجمع السور فيضمها."

(فصل القاف،ج:1،ص:65،ظ دارالعلم للملايين-بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں