بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن حفظ کرکے بھلا دینے کا حکم


سوال

کیا قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد بھول جانے سے عذاب ہوگا ؟

جواب

           قرآنِ کریم کو یادکرنے کے بعد جان بوجھ کر بھلادینا انتہائی سخت گناہ ہے، اورایسےشخص کے بارے میں حدیث شریف میں سخت وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ مشکوٰۃ شریف کی روایت میں ہے:

"عن سعد بن عبادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم" . رواه أبو داود والدارمي".

ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآنِ  کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا/کوڑھی ہونے کی حالت میں  ہو گا۔

البتہ بھلا دینے سے کیا مراد ہے ؟اس کے بارے میں محققین کی دو رائے ہیں ،ایک یہ کہ حفظ کو بھلانا ،دوسری رائے ناظرہ بھی بھلادینا ،جب کہ دوسری رائے راجح ہے یعنی جو شخص اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآنِ  کریم اتنا بھلا دے کہ  قرآن مجید میں دیکھ کر بالکل نہ پڑھ سکے وہ اس وعید میں شامل ہے،اور جو شخص دیکھ کر پڑھ سکے وہ اس وعید میں شامل نہیں ہے ؛لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ قرآن مجید یاد کرکے  نہ پڑھتے نہ پڑھتے حفظ کو بھلا دینا کوئی  حرج  کی بات نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا قرآن کریم کی بڑی نا قدری اور ایک نعمت عظمیٰ کی ناشکری ہے اور ناشکری پر قرآن مجید میں وعید آئی ہےکہ  اگر تم کفران نعمت اور ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے۔ لہٰذا قرآن کریم یاد کرنے کے بعد غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے اسے بھلا دینا سخت گناہ کی بات ہے۔ 

عون المعبود  میں ہے :

"(ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه) أي بالنظر أو بالغيب أو المعنى ثم يترك قراءته نسي  أو ما نسي (إلا لقي الله يوم القيامة أجذم) أي ساقط الأسنان أو على هيئة المجذوم أو ليست له يدا أو لا يجد شيئا يتمسك به في عذر النسيان أو ينكسر رأسه بين يدي الله حياء وخجالة من نسيان كلامه الكريم وكتابه العظيم وقال الطيبي: أي مقطوع اليد من الجذم وهو القطع وقيل مقطوع الأعضاء يقال رجل أجذم إذا تساقطت أعضاؤه من الجذام وقيل أجذم الحجة أي لا حجة له ولا لسان يتكلم به وقيل: خالي اليد عن الخير."

(باب التشدید فیمن حفظ القرآن  ثم نسیہ ،ج:4،ص:242،دارالکتب العلمیۃ)

فیض القدیر میں ہے :

"(ما من امرئ يقرأ القرآن) يحتمل بحفظه عن ظهر قلب ويحتمل يتعود قراءته نظرا في المصحف أو تلقينا ويدل للأول بل يعنيه قوله (ثم ينساه إلا لقى الله يوم القيامة) وهو (أجذم) بذال معجمة أي مقطوع اليد كذا قال أبو عبيد، واعترض بأن تخصيص العقوبة باليد لا يناسب هذه الخطيئة وفسره غيره بالأجذم الذي تساقطت أطرافه بالجذام قال القاضي: والأول أظهر وأشهر استعمالا."

(ج:5،ص:472،المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"والنسيان عندنا أن لا يقدر أن يقرأ بالنظر، كذا في شرح شرعة الإسلام."

(کتاب الصلاۃ،باب امساجد ومواضع الصلاۃ،ج:2،ص:605،دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا حفظ الإنسان القرآن ‌ثم ‌نسيه فإنه يأثم، وتفسير النسيان أن لا يمكنه القراءة من المصحف."

(کتاب الکراہیۃ ،الباب الرابع فی الصلاۃ والتسبیح ۔۔۔الخ،ج:5،ص:317،درالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں