بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم کو بغیر وضو چھونا


سوال

کیا قرآن کو بغیر وضو چھو سکتے ہیں؟

جواب

بغیر وضو کے مصحف (قرآنِ کریم کے نسخے) کو حائل کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مصحف کی جلد کے علاوہ کوئی چیز درمیان میں حائل ہو، (مثلاً: کوئی کپڑا پہنے ہوئے لباس کے علاوہ) تو اسے چھونے کی اجازت ہوگی۔ یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔

سورہ واقعہ کی آیت: { لَايَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ}  ترجمہ: ’’جسے بغیر پاکوں کے اور کوئی نہیں چھوتا‘‘  کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور "مطہرون" سے مراد وہ لوگ ہیں جو نجاست ظاہری اور معنوی یعنی حدث اصغر و اکبر سے پاک ہوں، حدث اصغر کے معنی بے وضو ہونے کے ہیں، اس کا ازالہ وضو کرنے سے ہو جاتا ہے اور حدث اکبر جنابت اور حیض ونفاس کو کہا جاتا ہے جس سے پاکی کے لیے غسل ضروری ہے، یہ تفسیر حضرت عطاء، طاؤس، سالم اور حضرت محمد باقر سے منقول ہے (روح) اس صورت میں جملہ’’لا یمسه‘‘ اگرچہ جملہ خبریہ ہے، مگر اس خبر کو بحکمِ انشاء یعنی نہی وممانعت کے معنی میں قرار دیا جائے گا اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مصحف قرآن کو چھونا بغیر طہارت کے جائز نہیں اور طہارت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ ظاہری نجاست سے بھی اس کا ہاتھ پاک ہو اور بے وضو بھی نہ ہو اور حدث اکبر یعنی جنابت بھی نہ ہو، قرطبی نے اسی تفسیر کو اظہر فرمایا ہے، تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کے اسلام لانے کے واقعہ میں جو مذکور ہے کہ انہوں اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے انکار کیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، فاروق اعظم نے مجبور ہو کر غسل کیا، پھر یہ اوراق پڑھے، اس واقعہ سے بھی اسی آخری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے اور روایات حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے، ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لیے  پیش کیا ہے۔

مگر چوں کہ اس مسئلے میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس  رضی اللہ عنہم وغیرہ کا اختلاف ہے جو اوپر آچکا ہے، اس لیے بہت سے حضرات نے بے وضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلے میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا (روح المعانی) وہ احادیث یہ ہیں:

امام مالک نے موطأ  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوبِ گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو ۔

اور روح المعانی میں روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’لایمس القرآن إلا طاهر‘‘ (روح المعانی) یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو ۔

روایاتِ مذکورہ کی بنا پر جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآنِ کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے، اس کے خلاف گناہ ہے، ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالتِ جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے، حضرت علی مرتضیٰ، ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص، سعید ابن زید، عطاء اور زہری، نخعی، حکم، حماد، امام مالک، شافعی، ابو حنیفہ رحمہم اللہ سب کا یہی مسلک ہے‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں