بعض لوگ کہتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ حضور ﷺ نے تین دن سے کم مدت میں ختم کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی معمول تھا، سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟ کیا تین دن سے پہلے قرآنِ کریم کو ختم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ائمہ مجتہدین کے اقوال کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
قرآنِ کریم کی تکمیل کے بارے میں احادیث میں ایام کی تعداد متعدد مذکور ہے، بعض روایات میں چالیس دن، بعض میں تیس دن، بعض میں پچیس، بیس، پندرہ، دس، سات، پانچ اور بعض روایات میں تین دن مذکور ہیں،بعض روایات میں سات دن سے کم میں ختم کرنے کی ممانعت ہے، جب کہ بعض روایات میں تین دن سے کم میں ختم کرنے کی ممانعت ہے، شارحین حدیث سے ان احادیث کی جو تشریح منقول ہے وہ یہ ہے کہ ان احادیث میں تکمیلِ قراتِ قرآن کی مدت بیان کرنامقصود نہیں ہے، بلکہ قرآنِ کریم کو صحیح طریقے سے ٹھہر ٹھہر کر اور غور و تدبر کے ساتھ پڑھنے کی ترغیب دینا مقصود ہے اور چوں کہ اس میں لوگوں کی استعدادیں اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، اسی لیے روایات میں مختلف مخاطبین کو مختلف مدت ارشاد فرمائی گئی ہے، گویا تکمیلِ قرآن کی مدت کے بارے روایات کا اختلاف لوگوں کے حالات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے،یعنی قرآن کی تکمیل ہر شخص کو اپنی قوت اور نشاط کے اعتبار سے کرنی چاہیے، جو شخص مثلاً سات دن سے کم میں قرآنِ کریم کا حق ادا کرتے ہوئے تکمیل /ختم پر قادر نہ ہو اسے سات دن سے کم میں ختم نہیں کرنا چاہیے اور جو شخص تین دن میں قرآنِ کریم کا حق ادا کرتے ہوئے مکمل کرنے پر تو قادر ہو لیکن تین دن سے کم میں حق کی ادائیگی کے ساتھ مکمل کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے سات دن سے کم میں مکمل قرآن پڑھنے کی تو اجازت ہوگی، لیکن تین دن سے کم میں ختم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور جو شخص تین دن سے کم (دو یا ایک دن) میں حق کی ادائیگی کے مکمل قرآن پڑھنے پر قادر ہو اس کے لیے تین دن سے کم میں بھی قرآنِ کریم مکمل پڑھنا جائز ہوگا، خلاصہ یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں تکمیل قرآن کی کوئی مدت متعین نہیں کی گئی ہے، اور حضور ﷺ کا سات یا تین سے کم میں ختم سے منع فرمانا "نہی ارشادی" ہے، یعنی آپ ﷺ نے شرعاً ناجائز ہونے کی وجہ سے منع نہیں فرمایا، بلکہ امت پر شفقت فرماتے ہوئے منع فرمایا کہ کہیں مشقت میں نہ پڑجائیں، نیز اس لیے بھی منع فرمایا کہ زیادہ پڑھنے کی فکر میں قرآن کریم کی حق تلفی نہ کی جائے، ورنہ اگر حضور ﷺ کا مقصد تین دن سے کم میں قرآن کریم کے ختم کو ناجائز قرار دینا ہوتا تو اس ارشاد کے بعد صحابہ کرام اور تبعین و تبع تابعین کبھی بھی تین دن سے کم میں قرآنِ کریم مکمل نہ پڑھتے ، جب کہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (مثلاً حضرت عثمان، حضرت تمیم داری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم) ایک رکعت یا ایک رات میں قرآن کریم مکمل پڑھ لیتے تھے ، اسی طرح بڑے بڑے تابعین اور ائمہ مجتہدین کے بارے میں بھی تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنا کثرت سے منقول ہے، چناں چہ سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی روایت کو اکثر راویوں کی روایت قرار دینے کے باوجود خود امام بخاری رحمہ اللہ سے ایک رات میں مکمل قرآنِ مجید پڑھنا منقول ہے، نیز ابن سیرین، سعید بن جبیر رحمہم اللہ کے متعلق منقول ہے کہ یہ حضرات ایک رات بلکہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم فرمایا کرتے تھے، امام شافعی رحمہ اللہ عام مہینوں میں دن رات میں ایک قرآن کریم ختم فرمایا کرتے تھے جب کہ رمضان المبارک کے مہینے میں دن رات میں دو دو قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے۔ نیز ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی تین دن سے کم میں قرآنِ کریم مکمل پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا ہے، بلکہ خود ان سے بھی تین دن سے کم مدت میں قرآنِ کریم کو مکمل پڑھنا ثابت ہے۔
ابو داؤد شریف کی شرح بذل المجہود میں سلف صالحین کا ختمِ قرآن کے معاملے میں معمول یہ منقول ہے کہ بعض حضرات مہینے میں ایک مرتبہ ختم کرتے تھے، بعض بیس دن میں، بعض دس دن میں، اکثر حضرات سات دن میں، بہت سے حضرات تین دن میں، بعض ایک دن رات میں اور بعض صرف ایک رات میں مکمل کرلیتے تھے۔
اب یہ کہنا بڑی جرات ہے کہ امت کے ان اکابر کا عمل حدیث کے خلاف تھا، کیوں کہ یہ حضرات تو سنتِ نبویہ پر عمل کے حریص تھے، لہذا اس باب میں جو احادیث مروی ہیں اس کے مختلف مطالب بیان کیے گئے ہیں، انہی مطالب میں سے ایک مطلب مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، چنانچہ تین دن میں قرآن ختم کرنے کی حدیث سے متعلق اپنی کتاب ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
"اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کےعلاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد (تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم نہ کرو ) امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے، تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآنِ کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیوں کہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآنِ کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے ؟"
(مقام ابی حنیفہ ص 243 )
لہذا اگر قرآن ِ کریم کا ختم تین دن سے کم (یعنی ایک دن یا اس سے بھی کم مدت) میں تلاوت کے آداب کی رعایت رکھتے ہوئےکیا جائے تو جائز ہے اور قرآن ِ کریم کے ادب کے خلاف نہیں ہے،البتہ جس شخص کے لیے اتنی کم مدت میں قرآن کریم کو آداب کی رعایت کے ساتھ مکمل پڑھنا ممکن نہ ہو یا دیگر فرائض اور ذمہ داریوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے اتنی کم مدت میں پڑھنا جائز نہیں ہوگا۔
بخاری شریف میں ہے:
"حدثنا موسى: حدثنا أبو عوانة، عن مغيرة، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو قال: أنكحني أبي امرأة ذات حسب، فكان يتعاهد كنته فيسألها عن بعلها، فتقول: نعم الرجل من رجل، لم يطأ لنا فراشا، ولم يفتش لنا كنفا مذ أتيناه، فلما طال ذلك عليه، ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: (القني به). فلقيته بعد، فقال: (كيف تصوم). قلت: كل يوم، قال: (وكيف تختم). قلت: كل ليلة، قال: (صم في كل شهر ثلاثة، واقرإ القرآن في كل شهر). قال: قلت: أطيق أكثر من ذلك، قال: (صم ثلاثة أيام في الجمعة). قلت: أطيق أكثر من ذلك، قال: (أفطر يومين وصم يوما). قال: قلت: أطيق أكثر من ذلك، قال: (صم أفضل الصوم، صوم داود، صيام يوم وإفطار يوم، واقرأ في كل سبع ليال مرة). فليتني قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذاك أني كبرت وضعفت، فكان يقرأ على بعض أهله السبع من القرآن بالنهار، والذي يقرؤه يعرضه من النهار، ليكون أخف عليه بالليل، وإذا أراد أن يتقوى أفطر أياما، وأحصى وصام أياما مثلهن، كراهية أن يترك شيئا فارق النبي صلى الله عليه وسلم عليه.
قال أبو عبد الله: وقال بعضهم: في ثلاث وفي خمس، وأكثرهم على سبع...
حدثني إسحاق: أخبرنا عبيد الله بن موسى، عن شيبان، عن يحيى، عن محمد بن عبد الرحمن، مولى بني زهرة، عن أبي سلمة قال: وأحسبني قال: سمعت أنا من أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرإ القرآن في شهر). قلت: إني أجد قوة، حتى قال: (فاقرأه في سبع، ولا تزد على ذلك)."
(كتاب فضائل القرآن،باب في كم يقرأ القرآن ،ج:6،ص:196،ط:دار طوق النجاة)
«فتح الباري» لابن حجر میں ہے:
"قوله: (وقال بعضهم في ثلاث أو في سبع) كذا لأبي ذر، ولغيره في ثلاث وفي خمس وسقط ذلك للنسفي، وكأن المصنف أشار بذلك إلى رواية شعبة، عن مغيرة بهذا الإسناد فقال: اقرأ القرآن في كل شهر قال: إني أطيق أكثر من ذلك، فما زال حتى قال: في ثلاث، فإن الخمس تؤخذ منه بطريق التضمن، وقد تقدم للمصنف في كتاب الصيام. ثم وجدت في مسند الدارمي من طريق أبي فروة، عن عبد الله بن عمرو قال: قلت: يا رسول الله، في كم أختم القرآن؟ قال: اختمه في شهر. قلت: إني أطيق، قال: اختمه في خمسة وعشرين، قلت: إني أطيق. قال: اختمه في عشرين. قلت: إني أطيق. قال: اختمه في خمس عشرة. قلت: إني أطيق. قال: اختمه في خمس. قلت: إني أطيق. قال: لا. وأبو فروة هذا هو الجهني، واسمه عروة بن الحارث، وهو كوفي ثقة. ووقع في رواية هشيم المذكورة، قال: فاقرأه في كل شهر. قلت: إني أجدني أقوى من ذلك. قال: فاقرأه في كل عشرة أيام. قلت: إني أجدني أقوى من ذلك. قال: أحدهما إما حصين وإما مغيرة. قال: فاقرأه في كل ثلاث. وعند أبي داود، والترمذي مصححا من طريق يزيد بن عبد الله بن الشخير، عن عبد الله بن عمرو مرفوعا: لا يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث وشاهده عند سعيد بن منصور بإسناد صحيح من وجه آخر عن ابن مسعود: اقرءوا القرآن في سبع ولا تقرءوه في أقل من ثلاث.
ولأبي عبيد من طريق الطيب بن سلمان، عن عمرة عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يختم القرآن في أقل من ثلاث. وهذا اختيار أحمد، وأبي عبيد، وإسحاق بن راهويه، وغيرهم. وثبت عن كثير من السلف أنهم قرءوا القرآن في دون ذلك. قال النووي: والاختيار أن ذلك يختلف بالأشخاص، فمن كان من أهل الفهم وتدقيق الفكر استحب له أن يقتصر على القدر الذي لا يختل به المقصود من التدبر واستخراج المعاني، وكذا من كان له شغل بالعلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين العامة يستحب له أن يقتصر منه على القدر الذي لا يخل بما هو فيه، ومن لم يكن كذلك فالأولى له الاستكثار ما أمكنه من غير خروج إلى الملل ولا يقرؤه هذرمة. والله أعلم.
قوله: (وأكثرهم) أي أكثر الرواة عن عبد الله بن عمرو.
قوله: (على سبع) كأنه يشير إلى رواية أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو الموصولة عقب هذا، فإن في آخره ولا يزد على ذلك أي لا يغير الحال المذكورة إلى حالة أخرى، فأطلق الزيادة والمراد النقص، والزيادة هنا بطريق التدلي، أي: لا يقرؤه في أقل من سبع. ولأبي داود، والترمذي، والنسائي من طريق وهب بن منبه عن عبد الله بن عمرو أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: في كم يقرأ القرآن؟ قال: في أربعين يوما. ثم قال: في شهر. ثم قال: في عشرين. ثم قال: في خمس عشرة، ثم قال: في عشر. ثم قال: في سبع. ثم لم ينزل عن سبع. وهذا إن كان محفوظا احتمل في الجمع بينه وبين رواية أبي فروة تعدد القصة، فلا مانع أن يتعدد قول النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن عمرو ذلك تأكيدا، ويؤيده الاختلاف الواقع في السياق، وكأن النهي عن الزيادة ليس على التحريم، كما أن الأمر في جميع ذلك ليس للوجوب، وعرف ذلك من قرائن الحال التي أرشد إليها السياق، وهو النظر إلى عجزه عن سوى ذلك في الحال أو في المآل، وأغرب بعض الظاهرية فقال: يحرم أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث، وقال النووي: أكثر العلماء على أنه لا تقدير في ذلك، وإنما هو بحسب النشاط والقوة، فعلى هذا يختلف باختلاف الأحوال والأشخاص، والله أعلم."
(كتاب فضائل القرآن،باب في كم يقرأ القرآن ،ج:9،ص:96،ط:دار المعرفة)
عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"قوله: (وقال بعضهم في ثلاث) أي: قال بعض الرواة: قرأ في كل ثلاث ليال مرة وكأنه أشار بذلك إلى رواية شعبة عن مغيرة بالإسناد المذكور، فقال: اقرأ القرآن في كل شهر، قال: إني أطيق أكثر من ذلك، فما زال حتى قال: في ثلاث، وروي أبو داود والترمذي مصححا من طريق يزيد بن عبد الله بن الشخير عن عبد الله بن عمرو مرفوعا: لا يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث، وهو اختيار أحمد وأبي عبيد وإسحاق بن راهويه وآخرون. قوله: (وفي خمس) أي: اقرأه في كل خمس ليال، وروي الدارمي من طريق أبي فروة عن عبد الله بن عمرو، قال: قلت: يا رسول الله! في كم أختم القرآن؟ قال: أختمه في شهر. قلت: إني أطيق قال أختمه في خمسة وعشرين. قلت: إني أطيق قال: أختمه في عشرين. قلت) إني أطيق، قال: اختمه في خمس عشرة، قلت إني أطيق قال اختمه في خمس. قبت إني إطيق. قال: لا وأبو فروة بالفاء عروة بن الحارث الجهني الكوفي الثقة. قوله: (وأكثرهم على سبع) أي: أكثر الرواة عن عبد الله بن عمرو: على سبع ليال، يعني: إقرأ في كل سبع ليال مرة، وروي أبو داود والترمذي والنسائي من ذريق وهب بن منبه عن عبد الله بن عمرو أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم: في كم يقرأ القرآن؟ قال: في أربعين يوما، ثم قال: في شهر، قال: في عشرين، ثم قال: في خمس عشرة، ثم قال: في عشر، ثم قال: في سبع، ثم لم ينزل عن سبع فإن قلت: كيف التوفيق بين هذا وبين حديث أبي فروة المذكور؟ قلت: بتعدد القصة، فلا مانع أن يتكرر قول النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن عمرو، ولأن النهي عن الزيادة ليس للتحريم كما أن الأمر في جميع ذلك ليس للوجوب...
قوله: (ولا تزد على ذلك) أي: على سبع قال الكرماني. مقتضى لا تزد أن لا تجوز الزيادة. قلت: لعل ذلك بالنظر إلى المخاطب، خاطبه لضعفه وعجزه. أو أن النهي ليس للتحريم، وكان أبي بن كعب يختمه في ثمان. وكان الأسود يختمه في ست، وعلقمة في خمس، وروي عن معاذ بن جبل، وكانت طائفة تقرأ القرآن كله في ليلة أو ركعة. وروي ذلك عن عثمان بن عفان وتميم الداري. وكان سليم يختم القرآن في ليلة ثلاث مرات، ذكر ذلك أبو عبيد. وقال صاحب التوضيح: أكثر ما بلغنا، قراءة ثمان ختمات في اليوم والليلة، وقال السلمي: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات وبالليل أربع ختمات."
(كتاب فضائل القرآن،باب في كم يقرأ القرآن وقول الله تعالى فاقرءوا ما تيسر منه،ج:20،ص:59،ط:دار الفكر)
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"وثبت عن كثير من السلف إنهم قرؤوا القرآن في دون ذلك قال النووي والاختيار أن ذلك يختلف بالأشخاص فمن كان من أهل الفهم وتدقيق الفكر استحب له أن يقتصر على القدر الذي لا يختل به المقصود من التدبر واستخراج المعاني وكذا من كان له شغل بالعلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين العامة يستحب له أن يقتصر منه على القدر الذي لا يخل بما هو فيه ومن لم يكن كذلك فالأولى له الاستكثار ما أمكنه من غير خروج إلى الملل ولا يقرؤه هذرمة والله أعلم...وكأن النهي عن الزيادة ليس على التحريم كما أن الأمر في جميع ذلك ليس للوجوب وعرف ذلك من قرائن الحال التي أرشد إليها السياق وهو النظر إلى عجزه عن سوى ذلك في الحال أو في المآل وأغرب بعض الظاهرية فقال يحرم أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث وقال النووي أكثر العلماء على أنه لا تقدير في ذلك وإنما هو بحسب النشاط والقوة فعلى هذا يختلف باختلاف الأحوال والأشخاص والله أعلم."
(كتاب فضائل القرآن، باب في كم يقرأ القرآن ،ج:9، ص:97، ط:دار المعرفة)
شرح النووی میں ہے:
"(واقرأ القرآن في كل شهر ثم قال في كل عشرين ثم قال في كل سبع ولا تزد) هذا من نحو ما سبق من الإرشاد إلى الاقتصاد في العبادة والإرشاد إلى تدبر القرآن وقد كانت للسلف عادات مختلفة فيما يقرؤون كل يوم بحسب أحوالهم وأفهامهم ووظائفهم فكان بعضهم يختم القرآن في كل شهر وبعضهم في عشرين يوما وبعضهم في عشرة أيام وبعضهم أو أكثرهم في سبعة وكثير منهم في ثلاثة وكثير في كل يوم وليلة وبعضهم في كل ليلة وبعضهم في اليوم والليلة ثلاث ختمات وبعضهم ثمان ختمات وهو أكثر ما بلغنا وقد أوضحت هذا كله مضافا إلى فاعليه وناقليه في كتاب آداب القراء مع جمل من نفائس تتعلق بذلك والمختار أنه يستكثر منه ما يمكنه الدوام عليه ولا يعتاد إلا ما يغلب على ظنه الدوام عليه في حال نشاطه وغيره هذا إذا لم تكن له وظائف عامة أو خاصة يتعطل بإكثار القرآن عنها فإن كانت له وظيفة عامة كولاية وتعليم ونحو ذلك فليوظف لنفسه قراءة يمكنه المحافظة عليها مع نشاطه وغيره من غير إخلال بشيء من كمال تلك الوظيفة وعلى هذا يحمل ما جاء عن السلف والله أعلم."
(باب النهي عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حقا، ج:8،ص:38، ط:دار احياء التراث العربي)
تفسير ابن كثير میں ہے :
"وقد ترخص جماعة من السلف في تلاوة القرآن في أقل من ذلك؛ منهم أمير المؤمنين عثمان بن عفان، رضي الله عنه.
قال أبو عبيد: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، أخبرني ابن خصيفة، عن السائب بن يزيد: أن رجلا سأل عبد الرحمن بن عثمان التيمي عن صلاة طلحة بن عبيد فقال: إن شئت أخبرتك عن صلاة عثمان، رضي الله عنه، فقال: نعم. قال: قلت: لأعلين الليلة على الحجر، فقمت، فلما قمت إذا أنا برجل مقنع يزحمني، فنظرت فإذا عثمان بن عفان، فتأخرت عنه، فصلى فإذا هو يسجد سجود القرآن، حتى إذا قلت: هذه هوادي الفجر، أوتر بركعة لم يصل غيرها . وهذا إسناد قال وحدثنا هشيم، عن منصور، عن ابن سيرين قال: قالت نائلة بنت الفرافصة الكلبية حيث دخلوا على عثمان ليقتلوه: إن يقتلوه أو يدعوه، فقد كان يحيي الليل كله بركعة يجمع فيها القرآن. وهذا حسن أيضا .
وقال -أيضا-: حدثنا أبو معاوية، عن عاصم بن سليمان، عن ابن سيرين: أن تميما الداري قرأ القرآن في ركعة . حدثنا حجاج بن شعبة، عن حماد، عن سعيد بن جبير: أنه قال: قرأت القرآن في ركعة في البيت -يعني الكعبة . وحدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة أنه قرأ القرآن في ليلة، طاف بالبيت أسبوعا، ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بالطول، ثم طاف بالبيت أسبوعا، ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بالمئين، ثم طاف أسبوعا، ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بالمثاني، ثم طاف بالبيت أسبوعا ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بقية القرآن .
وهذه كلها أسانيد صحيحة، ومن أغرب ما هاهنا: ما رواه أبو عبيد: حدثنا سعيد بن عفير، عن بكر بن مضر، أن سليم بن عتر التجيبي كان يختم القرآن في ليلة ثلاث مرات، ويجامع ثلاث مرات. قال: فلما مات قالت امرأته: رحمك الله، إن كنت لترضي ربك وترضي أهلك، قالوا: وكيف ذلك؟ قالت: كان يقوم من الليل فيختم القرآن، ثم يلم بأهله ثم يغتسل، ويعود فيقرأ حتى يختم ثم يلم بأهله، ثم يغتسل، ويعود فيقرأ حتى يختم، ثم يلم بأهله ثم يغتسل، ويخرج إلى صلاة الصبح .
قلت: كان سليم بن عتر تابعيا جليلا ثقة نبيلا وكان قاضيا بمصر أيام معاوية وقاصها، ثم قال أبو حاتم: روى عن أبي الدرداء، وعنه ابن زحر، ثم قال: حدثني محمد بن عوف، عن أبي صالح كاتب الليث، حدثني حرملة بن عمران، عن كعب بن علقمة قال: كان سليم بن عتر من خير التابعين . وذكره ابن يونس في تاريخ مصر.
وقد روى ابن أبي داود عن مجاهد أنه كان يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء. وعن منصور قال: كان علي الأزدي يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء كل ليلة من رمضان. وعن إبراهيم بن سعد قال: كان أبي يحتبي فما يحل حبوته حتى يختم القرآن. قلت: وروي عن منصور بن زاذان: أنه كان يختم فيما بين الظهر والعصر، ويختم أخرى فيما بين المغرب والعشاء، وكانوا يؤخرونها قليلا. وعن الإمام الشافعي، رحمه الله: أنه كان يختم في اليوم والليلة من شهر رمضان ختمتين، وفي غيره ختمة. وعن أبي عبد الله البخاري -صاحب الصحيح-: أنه كان يختم في الليلة ويومها من رمضان ختمة. ومن غريب هذا وبديعه ما ذكره الشيخ أبو عبد الرحمن السلمي الصوفي قال: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: كان ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات، وبالليل أربع ختمات.
وهذا نادر جدا. فهذا وأمثاله من الصحيح عن السلف محمول إما على أنه ما بلغهم في ذلك حديث مما تقدم، أو أنهم كانوا يفهمون ويتفكرون فيما يقرؤونه مع هذه السرعة، والله أعلم.
قال الشيخ أبو زكريا النووي في كتابه التبيان بعد ذكر طرف مما تقدم: (والاختيار أن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص، فمن كان له بدقيق الفكر لطائف ومعارف فليقتصر على قدر يحصل له كمال فهم ما يقرؤه، وكذا من كان مشغولا بنشر العلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين العامة فليقتصر على قدر لا يحصل بسببه إخلال بما هو مرصد له، وإن لم يكن من هؤلاء المذكورين فليستكثر ما أمكنه من غير خروج إلى حد الملل والهذرمة)."
(مقدمة ابن كثير،ج:1،ص:83،ط:دار الطيبةللنشر والتوزيع، الرياض)
بذل المجهود میں ہے:
"(حدثنا مسلم بن إبراهيم وموسى بن إسماعيل قالا: نا أبان) بن يزيد العطار، (عن يحيى) بن أبي كثير، (عن محمد بن إبراهيم) بن الحارثي التيمي، (عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له) أي لعبد الله بن عمرو بن العاص: (اقرإ القرآن في شهر) كل ليلة جزءا، وكان يقرأ القرآن كل ليلة، أي يختم فيها، كما هو في حديث مسلم .
(قال: إني أجد قوة) على أكثر من هذا القدر، فأذن لي في الزيادة عليه (قال: اقرأ في عشرين) أي اختم في عشرين ليلة (قال: إني أجد قوة) على الزيادة منه (قال) رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرأ في خمس عشرة) ليلة، في كل ليلة جزئين. (قال: إني أجد قوة، قال) رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرأ) القرآن (في عشر) أي عشر ليال، في كل ليلة منها ثلاثة أجزاء (قال) عبد الله بن عمرو: (إني أجد قوة) أن أقرأ أكثر منها (قال) رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرأ في سبع) على منازل "فمي بشوق" (ولا تزيدن على ذلك).
قال النووي: هذا من الإرشاد إلى الاقتصاد في العبادة، والإشارة إلى تدبر القرآن، وقد كان للسلف عادات مختلفة فيما يقرؤون، كل يوم بحسب أحوالهم وأفهامهم ووظائفهم، فكان بعضهم يختم القرآن في كل شهر، وبعضهم في عشرين يوما، وبعضهم في عشرة أيام، وبعضهم أو أكثر في سبعة، وكثير منهم في ثلاثة، وكثير في كل يوم وليلة، وبعضهم في كل ليلة، وبعضهم في اليوم والليلة ثلاث ختمات، وبعضهم ثمان ختمات، وهو أكثر ما بلغنا، وقد أوضحت ذلك كله مضافا إلى فاعليه وناقليه في كتاب "آداب القراء". قلت: وقد أخرج مسلم هذا الحديث في "صحيحه" في كتاب الصوم مفصلا."
(كتاب الصلاة،باب: في كم يقرأ القرآن،6/ 41، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
بذل المجهود میں ہے:
"(قال أوس: سألت أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم) ولفظ أحمد: "فسألنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أصبحنا" (كيف تحزبون القرآن؟ قالوا: ثلاث) أي ثلاث سور: سورة البقرة والنساء، وآل عمران في اليوم الأول. (وخمس) أي خمس سور في اليوم الثاني وهي: سورة المائدة، والأنعام، والأعراف، والأنفال، والتوبة. (وسبع) أي سبع سور في اليوم الثالث وهي: سورة يونس، وهود، ويوسف، والرعد، وإبراهيم، والحجر، والنحل. (وتسع) أي تسع سور في اليوم الرابع وهي: سورة بني إسرائيل، والكهف، ومريم، وطه، والأنبياء، والحج، والمؤمنون، والنور، والفرقان. (وإحدى عشرة) أي إحدى عشرة سورة في اليوم الخامس وهي: سورة الشعراء، والنمل، والقصص، والعنكبوت، والروم، ولقمان، وألم السجدة، والأحزاب، وسبأ، وفاطر، ويس. (وثلاث عشرة) أي ثلاث عشرة سورة في اليوم السادس وهي: سورة الصافات، وص، والزمر، والمؤمن، وحم السجدة، والشورى، والزخرف، والدخان، والجاثية، والأحقاف، ومحمد، والفتح، والحجرات. (وحزب المفصل وحده) أي من سورة ق إلى آخر سورة، وهي سورة الناس في اليوم السابع، ولفظ أحمد: قال: قلنا: كيف تحزبون القرآن؟ قالوا: نحزبه ست سور، وخمس سور، وسبع سور، وتسع سور، وإحدى عشرة سورة، وثلاث عشرة سورة، وحزب المفصل من ق حتى تختم، ولعل لفظ ست في رواية أحمد تصحيف من الناسخ والصواب ثلاث سور .
وهذا التحزيب يقال له في اصطلاح القراء: تحزيب "فمي بشوق"، إلا أنه ترك في الحديث ذكر الفاتحة لصغرها، وهذا الحديث يدل على أن ترتيب السور في القرآن عند جمهور الصحابة مثل ترتيب السور الذي الآن في القرآن."
(كتاب الصلاة،باب تحزيب القرآن،6/ 49، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604100400
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن