بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم بطورمزاح کے پڑھنا


سوال

 بطورِ مذاق  قرآن پڑھنے والے کا حکم کیا ہے؟ مثلاً کسی کا نام عبداللہ ہے اور معاذ اللہ اسے پکارنے کہ لیے قرآنی آیت کو فٹ کرنا اور کہنا کہ قال انی عبداللہ کہہ کر مذاق سے پکارنا ، یا الا ابلیس وغیرہ کہہ کر سامنے والے کو مخاطب کرنا یا معاذ اللہ کسی آیت کو بطورِ تمسخر  پڑھنا جس سے ایسا لگتا ہو کہ وہ اس آیت کا مذاق اڑا رہا ہو؟ 

جواب

کسی کام یا واقعہ کے پیش آنےکے بعد قرآن کریم کی آیات مبارکہ کو اس پر منطبق کرتے ہوئے پڑھنا اگر بطور استشہاد اور تمثیل ہو اور اس میں کسی قسم کا استہزا یا مزاح نہ ہو تو یہ جائزہے، نبی کریم ﷺ منبر پر کھڑے خطبہ ادا فرمارہے تھے، اتنے میں حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سامنے سے گرتے پڑتے تشریف لائے، انہوں نے لال قمیصیں پہنی ہوئی تھی، آپ ﷺ منبر سے نیچے اترے ، دونوں کو اٹھا کر منبر پر تشریف فرماہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے سچ کہا ہے: "إنما أموالكم وأولادكم فتنة"(تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہے) ، میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کرپایا۔

لیکن آیات قرآنیہ کو اللہ تعالی کی مراد اور مقصود سے  پھیر کر کسی اور غرض کے لیے پڑھنا درست نہیں۔ اور اگر اس میں استہزا اور مزاح شامل ہو تو یہ موجب کفر  ہے۔

"فتاوی ہندیہ " میں ہے کہ جو شخص پیالہ بھر کر لائے اور بطور مزاح "وكأسا دهاقا "کہے تو کافر ہوجاتا ہے۔

"أو ملأ قدحا، وجاء به وقال: {وكأسا دهاقا} [النبأ: 34] ، أو قال: {فكانت سرابا} [النبأ: 20] بطريق المزاح، أو قال عند الكيل والوزن، {وإذا كالوهم أو وزنوهم يخسرون} [المطففين: 3] بطريق المزاح۔۔۔كفر في هذه الصور كلها ، قيل: يكفر وقال الإمام أبو بكر بن إسحاق - رحمه الله تعالى - إن كان القائل جاهلا لا يكفر، وإن كان عالما يكفر."

( کتاب السیر ، الباب التاسع، ج:2، ص:267،    ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں