بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قرآن پاک دیکھ کر پڑھنا


سوال

حرمین شریفین میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ تراویح قران ہاتھ میں لے کر سنتے ہیں، تو  نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا  یا دیکھ کر سننا کیسا ہے؟ 

حدیث میں جوکہ بخاری شریف میں ہے اور اسی طرح بیہقی میں ہے کہ ذکوان نے حضرت عائشہ امامت کی اور ذکوان دیکھ  کر قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ اس حدیث کا معقول جواب دیجیے۔

ہندوستان کے ایک عالم نے اس بارے  کچھ  کہا ہے کہ لاک ڈاؤن میں کوئی حافظ نہ ملے تو اس طرح قرآن تراویح میں دیکھ  کر  پڑھ  کر مکمل کرے۔

نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا  یا دیکھ کر سننا کیسا ہے؟

جواب

قرآن پاک کو اٹھانا  یا اس میں سے دیکھ  کر پڑھنا نماز  کے لیے مفسد ہے، لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1- یہ عمل کثیر ہے، اور اس کی وجہ سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔

2- قرآن دیکھ  کر پڑھنا اہل کتاب کا طریقہ ہے، اس لیے کہ ان کو ان کی کتاب حفظ نہیں ہوتی۔لہذا لاک ڈاؤن میں بھی اس طرح نماز نہ پڑھے، اگر کوئی حافظ نہ ملے تو جتنی آیات یا سورتیں یاد ہیں انہیں سے تراویح ادا کرے۔

3- یہ متوارث طریقے کے بھی خلاف ہے۔

4- نماز کے دوران قرآن مجید میں دیکھ کر تلاوت کرنا خارجِ نماز سے تعلیم و تلقین قبول کرنا ہے، یہ بھی نماز کے فساد کا سبب ہے۔

مذکورہ روایت کا مطلب علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ذکوان دن میں قرآن مصحف سے دیکھ  کر یاد کرتے تھے اور رات کو سنایا کرتے تھے، روایت میں ’’من المصحف‘‘ کے الفاظ ہیں نہ کہ قرآن کو اٹھانے کے۔

{بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ} [العنكبوت:49]،

فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 277):
"قوله: (من المُصْحَفِ)، والقراءة من المُصْحَفِ مُفْسِدَةٌ عندنا، فتأوَّله بعضُهم أنه كان يَحْفَظُ من المُصْحَف في النهار، ويقرؤه في الليل عن ظَهْرِ قلب.
قلتُ: إن كان ذَكْوَان يقرأُ من المُصْحَفِ، فلنا ما رواه العَيْنِي رحمه الله: أن عمر رضي الله عنه كان ينهى عنه، ورأيتُ في الخارج: أنه كان من دَأْب أهل الكتاب، فإِنهم لايتمكَّنون أن يقرأوا كُتُبهم عن ظَهْر قلبٍ، على أنه مخالفٌ للتوارث قطعًا".

شرح السنة للبغوي (3/ 400):
"فَيَؤُمُّهُمْ أَبُو عَمْرٍو مَوْلَى عَائِشَةَ، وَأَبُو عَمْرٍو غُلامُهَا حِينَئِذٍ لَمْ يَعْتِقْ.
وَرُوِيَ أَنَّ عَائِشَةَ، كَانَ يَؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (5/ 225):
"قلت: الْقِرَاءَة من مصحف فِي الصَّلَاة مفْسدَة عِنْد أبي حنيفَة لِأَنَّهُ عمل كثير، وَعند أبي يُوسُف وَمُحَمّد يجوز؛ لِأَن النّظر فِي الْمُصحف عبَادَة، وَلكنه يكره لما فِيهِ من التَّشَبُّه بِأَهْل الْكتاب فِي هَذِه الْحَالة، وَبِه قَالَ الشَّافِعِي وَأحمد، وَعند مَالك وَأحمد فِي رِوَايَة  لَاتفْسد فِي النَّفْل فَقَط".

شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (2/ 53):
"(يؤمها عبدها ذكوان من المصحف) وهو يومئذ غلام لم يعتق، وهذا مذهب الشافعي، وأبي يوسف ومحمدُ لأنه لم يقترن به ما يبطل الصلاة. وقال أبو حنيفة: يفسدهاُ لأنه عمل كثير".

الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري (5/ 74):
"(ذكوان) بفتح المعجمة وسكون الكاف أبو عمرو عبد عائشة وخادمها وقد دبرته مات في أيام الحرة أو قتل بها، وجاز في الصلاة النظر في المصحف والقراءة منه إذا لم يحصل به ما يبطل الصلاة".

اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح (4/ 29):
"(من المصحف)؛ أي: يَنظُرُ فيه ويَقرأُ منه، وذلك لايُبطل الصَّلاة إذا لم يَقترن به مُبطلٌ".

منحة الباري بشرح صحيح البخاري (2/ 407):
"(ذَكْوان) بفتح المعجمة وسكون الكاف. (من المصحف) أي: بأن ينظر فيه ويقرأ منه، ولم يقترن به ما يبطل الصلاة". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109203179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں