بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنی اور مسنون دعاؤں میں صیغوں تبدیلی


سوال

قرآنی اور مسنون دعاؤں کے صیغوں میں جمع واحد کی تبدیلی کرنا کیسا ہے مثلاً رب زدنی علما کو  ربنا زدنا علماپڑھ کر مانگنا بحوالہ جواب ارسال فرمائیں اتنا تو مجھے ایک مفتی صاحب نے بتایا تھا کہ ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ نہیں بدل سکتے لیکن الفاظ سے ہٹ کر صیغہ کی تبدیلی کاکیا حکم ہے ؟

جواب

قرآن وحدیث میں جو دعا ئیں جس صیغہ کے ساتھ منقول ہیں، ان کی اپنی تاثیر اور خصوصیات ہیں، ان میں تبدیلی کرنے سے وہ دعاء لفظا ماثور اور منقول نہیں رہتی، محققین علماء کرام کے نزدیک مسنون دعاؤں اور اذکار کے الفاظ توقیفی ہوتے ہیں، اس لیے ان کو اس کی اتباع میں اسی طرح پڑھنا چاہیے، ان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی، البتہ اس میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے دعا کے درمیان تبدیلی کرنے سے اگرچہ وہ دعا، دعا ہونے کی حیثیت سے تو درست ہو سکتی ہے، لیکن اس کو مأثور  نہیں کہا جائے گا۔

فرض نماز میں بھی  منقول دعا جس صیغہ کے ساتھ وارد ہے، اسی صیغہ کے ساتھ ہی پڑھی جائے، چوں کہ امام مقتدیوں کا نمائندہ ہوتا ہے تو اس کی دعا میں مقتدی خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔

اور نماز کے علاوہ بھی اگر ماثور و منقول دعا میں واحد کا صیغہ ہے تو اس دعا کو ان ہی الفاظ سے مانگنا بہتر ہے، اس صورت میں بھی سامعین " آمین " کہہ کر دعا میں شامل ہو سکتے ہیں، یا دعا کرنے والا دل میں تمام مسلمانوں کی نیت کر کے بھی ان سب کو شامل کر سکتا ہے۔ البتہ اگر دعا کرنے والا ماثور دعاؤں میں سے جو عمومی دین و دنیا کی بھلائی کی دعائیں ہیں ، ان میں واحد کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے، نیز انفرادی دعاء کرنے میں بھی کیفیت کے اعتبار سے دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں ، البتہ منقول کی اتباع زیادہ بہتر ہے، اور دونوں پر ایک ساتھ بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔

تحفة الالمعی میں ہے:

’’فائدہ : ماثورہ اذکار میں تبدیلی کرنے کی تو گنجائش نہیں مگر اضافہ کی گنجائش ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کو کوئی دعا سکھلائی تھی، انہوں نے وہ دعا یاد کر کے سنائی، اور  "نبيك الذي أرسلت"  کی جگہ  "رسولك الذي أرسلت “ پڑھ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا، معلوم ہوا کہ منقولہ دعاؤں میں تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ، اور کتاب الحج میں یہ حدیث آئے گی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بیان کیا کہ نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا، پھر انہوں نے ماثورہ تلبیہ کے آخر میں اضافہ کیا، معلوم ہوا کہ شروع میں یا درمیان میں یا آخر میں اضافہ کی گنجائش ہے۔‘‘

(کتاب الصلاة، ج:2، ص:94، ط: زمزم)

شرح النودی علی مسلم میں ہے:

" عن سعد بن عبيدة، حدثني البراء بن عازب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا أخذت مضجعك فتوضأ وضوءك للصلاة، ثم اضطجع على شقك الأيمن، ثم قل: اللهم إني أسلمت وجهي إليك، وفوضت أمري إليك،وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت وبنبيك الذي أرسلت، واجعلهن من آخر كلامك، فإن مت من ليلتك مت وأنت على الفطرة قال: فرددتهن لأستذكر هن فقلت: آمنت برسولك الذي أرسلت، قال: "قل: آمنت بنبيك الذي أرسلت.

قوله: فرددتهن لأستذكرهن فقلت آمنت برسولك الذي أرسلت قال قل آمنت بنبيك الذي أرسلت اختلف العلماء في سبب إنكاره صلى الله عليه وسلم ورده اللفظ فقيل إنما رده لأن قوله آمنت برسولك يحتمل غير النبي صلى الله عليه وسلم من حيث اللفظ واختار المازري وغيره أن سبب الإنكار أن هذا ذكر ودعاء فينبغي فيه الاقتصار على اللفظ الوارد بحروفه وقد يتعلق الجزاء بتلك الحروف ولعله أوحي إليه صلى الله عليه وسلم بهذه الكلمات فيتعين أداؤها بحروفها وهذا القول حسن."

( باب استحباب خفض الصوت بالذكر إلا فى المواضع،ج:17، ص:32،  ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں