بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا وجہ کھال ضائع کرنا درست نہیں


سوال

ہمارے ہاں پہلے قربانی  کی کھال مدارس اور  مساجد  میں جمع کرواتے تھےجو کراچی میں فروخت  ہوتی تھیں، جب کہ بارڈر بند ہوگئے، راستے بند ہوگئے،  اب اعلان کیا جارہا ہے  کہ اب کھالیں مت لائیں۔ ان کو کچرے میں ڈالیں اور ان کی قیمت  مقرر کردی گئی  ہے،  بکری،گائے، اونٹ کی کھال کی  مختلف قیمت مسجد میں نقدی کی صورت میں جمع کروائیں یا یہ رقم صدقہ کریں۔

سوال  یہ ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  آیا جمع نہ کرنے کی صورت میں گناہ ہوگا؟  آیا یہ قربانی کا حصہ ہے؛ کیوں کہ پورے ایرانی بلوچستان میں یہ عام کردیا گیا ہے،  کیا یہ بدعت ہے ؟

 

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  قربانی  کی کھال ضائع کرنے کے  بجائے اگر استعمال میں  لائی جاسکتی ہے تو  خود استعمال کر لیں، یا کسی کو ہدیہ کر دیں ، اپنے استعمال میں لائے بغیر بلا وجہ ضائع کرنا ضیاعِ مال ہونے کی وجہ سے  جائز   نہیں۔ لوگوں کو اس پر آمادہ کرنا اور ابھارنا شرعًا جائز نہیں ،تاہم   کھالیں ضائع کرنے(کچرے میں ڈالنے )کی صورت میں اس کی قیمت لگانا اور اسے صدقہ کرنا لازم نہیں ہے۔البتہ اگر کھال فروخت کر  لی جائے تو اس کی قیمت  کسی مستحقِ زکات کوصدقہ کرنا لازم  ہوگا۔ 

امداد الاحکام  میں ہے:

"قربانی کے  جانور  کی جو اشیاء قابلِ استعمال ہوں، مثلاً گوشت، کھال وغیرہ، اگر خود استعمال نہ کرنی ہوں تو کسی اور کو دے دیا جائے، اسے دفن کرنا ضیاعِ مال ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ لہذا  چمڑا دفن کرنے کی بجائے کسی  کو ہدیہ دے دیا جائے یا دینی مدارس کو  دے دی جائے یا اس کو فروخت کرکے اس کی رقم کسی مستحقِ  زکوٰۃ کو دے دی جائے۔"

(مستفاد از امداد الاحکام ، کتاب، ج: 4، صفحہ: 200، ۴/۲۰۰،کتاب الصید، ط:مکتبہ دارالعلوم )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں