بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا جانور خریدنے کے بعد بیچنا، اور قسطوں میں خریدی ہوئی چیز کو نقد فروخت کرنا


سوال

 1۔ زید نے عید سے دو ماہ پہلے قربانی کا جانور خریدا،پھر اس پر قرض چڑھ گیا، اس نے جانور کو بیچ کر اس کا نفع کاروبار میں لگایا، اپنا قرض ادا کر کے جانور دوبارہ خرید لیا، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

2۔ انسٹالمنٹ پر موٹر سائیکل خریدی ،پھر اسے نقد فروخت کرکے اس سے قرضہ اتارا، تو ایسا کرنا جائز ہے، یا سود کے زمرے میں آتا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ اگر مال دار آدمی یعنی صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کا جانور قربانی کی نیت سے لیا تو اس کے لیے اس کو فروخت کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن اگر فروخت کرلیا تو بیع درست ہوجائے گی، پھر اس کے بعد دوسرا جانور اس سے کم قیمت کا نہ خریدے، اگر دوسرا جانور پہلے سے کم قیمت پر لیا تو پہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہو وہ صدقہ کردینا ضروری ہے، لیکن اگر آدمی صاحبِ نصاب نہیں تھا اور اس پر قربانی واجب نہیں تھی ، لیکن اس نے قربانی کی نیت سے جانور لیا ، اب اس کے لیے اسی جانور کی قربانی کرنا لازم ہے، اسے  فروخت کرنا جائز نہیں ہے ، فروخت کرنے کی صورت میں گناہ گار ہوگا۔

پس صورتِ مسئولہ میں پہلا جانور جتنی قیمت پر فروخت کیا تھا اس سے کم قیمت پر دوسرا  جانور خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم اگر فروخت کر کے رقم اپنے استعمال میں لائی گئی تو قربانی کے موقع پر اتنی ہی رقم کا جانور قربانی کرنا ہوگا، اس سے کم قیمت والا جانور ذبح کرنے کی صورت میں دونوں کی قیمت میں جو فرق آئے گا اتنی رقم صدقہ کرنی ہوگی۔

2۔قسطوں پر کوئی چیز خرید کر آگے کسی تیسرے  شخص کو  نقد پرفروخت کرنے میں تو شرعا کوئی حرج نہیں ہے ،البتہ آج کل اس کی جو صورت رائج ہے کہ کسی کو قرض کی ضرورت ہو اور وہ قرض لینے آئے اور اسے قرض کی جگہ کوئی اور چیز دی جائے اور پھر وہی چیز اس سے دوبارہ خرید لی جائے، یا وہ تیسرے فرد کو بیچے اور تیسرا فرد پھر پہلے فرد کو بیچ دے،یا قرض دینے کے بجائے مہنگے داموں قسطوں پر کوئی چیز دے دے تاکہ وہ بازار میں اس کو نقد فروخت کردے،تو اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’بیعِ عینہ‘‘ کہتے ہیں جو کہ مکروہ اور قابل ترک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے۔لیکن صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص  کسی سے قرض طلب کرنے کے بجائے از خود  کسی سے کوئی چیز موٹر سائیکل  وغیرہ قسطوں پر مہنگے داموں پر  خرید کر  اسے بازار میں کسی اور کے ہاتھ فروخت کرکےنقد پیسے حاصل کر کے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہے تو یہ جائز ہے، یہ سود کے زمرے میں نہیں آۓ گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(وفقير) عطف عليه (شراها لها)؛ لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها، (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا)؛ لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء، وهذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، وهو النذر بالتضحية عرفاً، كما في البدائع".

(‌‌كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 321، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"ويكره أن يبدل بها غيرها أي إذا كان غنياً، نهاية، فصار المالك مستعيناً بكل من يكون أهلاً للذبح آذناً له دلالةً اهـ"

(‌‌كتاب الأضحية، فروع، ج: 6، ص: 329، ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولو باع الأضحية جاز، خلافاً لأبي يوسف رحمه الله تعالى، ويشتري بقيمتها أخرى ويتصدق بفضل ما بين القيمتين".

(كتاب الأضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه، ج: 5، ص: 301، 302، ط: دارالفکر)

2۔فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: أمر كفيله ببيع العينة) بكسر العين المهملة وهي السلف، يقال باعه بعينة: أي نسيئة مغرب.:

وفي المصباح وقيل لهذا البيع عينة؛ لأن مشتري السلعة إلى أجل يأخذ بدلها عينا أي نقدا حاضرا اهـ، أي قال الأصيل للكفيل اشتر من الناس نوعا من الأقمشة ثم بعه فما ربحه البائع منك وخسرته أنت فعلي فيأتي إلى تاجر فيطلب منه القرض ويطلب التاجر منه الربح ويخاف من الربا فيبيعه التاجر ثوبا يساوي عشرة مثلا بخمسة عشر نسيئة فيبيعه هو في السوق بعشرة فيحصل له العشرة ويجب عليه للبائع خمسة عشر إلى أجل."

(کتاب الکفالة، مطلب فی بیع العینة، ج: 5، ص: 325، ط: سعید)

وفيہ ايضاً:

"ثم قال في الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة اهـ، وأقره في البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود."

(کتاب الکفالة، مطلب فی بیع العینة، ج: 5، ص: 326، ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں