بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

 قرآنی آیات کو پرندوں کی شکل میں لکھنا


سوال

 قرآنی آیات کو پرندوں کی شکل میں لکھنا کیسا ہے؟

جواب

قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اور  لوگوں کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے نازل ہوئی ہے،  اس کو اس انداز سے لکھنا  اس کا مقصد ہی فوت ہوجائے درست نہیں ہے،  نیز  قرآنِ کریم کو  رسمِ عثمانی میں لکھنا بھی  ضروری ہے، اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے، مزید بر آں اگر پرندوں کی شکل سے مراد اس کے جسم کی مکمل ترجمانی ہے، تو اس میں جان دار کی تصویر بنانے کا گناہ بھی مستزاد ہوگا؛ لہذا  قرآنِ مجید کو اس انداز سے لکھنا کہ اس کا مقصد فوت ہوجائے یا رسمِ عثمانی کے خلاف لکھنا درست نہیں ہے، جب کہ پرندوں کی شکل میں آیات لکھنا تو قرآن کریم کی بے توقیری اور اہانت ہے، اس لیے  قرآنی آیات کو پرندوں کی شکل میں لکھنا جائز نہیں ہے۔

 الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي؛ لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون}، وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم. وقد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها وقد بسطتها في تأليف مفرد. فصل : القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء والوقوف عليه وقد مهد النحاة له أصولاّ وقواعد وقد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام، وقال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة، وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا، قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ  نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير  ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، ولا يخالفهم فيه ولايغير مما كتبوه شيئاً فإنهم كانوا أكثر علماً وأصدق قلباً ولساناً وأعظم أمانةً منا فلاينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكاً عليهم". (4 / 168، النوع السادس والسبعون: في مرسوم الخط وآداب کتابته، ط: المجلس العلمي، الهند) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108201268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں