بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنِ مجید کی بے حرمتی کرنے والے کو سزا دینا کس کی ذمہ داری ہے؟


سوال

 کوئی شخص نعوذ باللہ قرآنِ کریم کی بے حرمتی کرتا ہے، جلاتا ہے عوام کے سامنے اپنے ہوش و حواس میں ، تو کیا اس شخص کو روکنے کے علاوہ مارنا درست ہے ؟ مثلاً ہمارے ہاں ایک خواجہ سرا نے معاذ الله قرآنِ کریم کو جلایا ،تو لوگوں نے اس کو بہت مارا پیٹا ، لوگ کہتے ہیں کہ قانون انصاف نہیں کرتا، گستاخ کو خود عوام کا مارنا درست ہے؟ اسلام کیا کہتا ہے اس کے متعلق ؟

جواب

قرآنِ  مجید کی توہین کرتے ہوئے قرآنِ مجید کو جلانا کفر ہے، اگر کوئی شخص قرآنِ  کریم کی اہانت کی نیت سے قرآنِ  کریم کو جلا رہا ہو  اور اِس حالت  میں مسلمان اسے دیکھ  لیں تو  وہاں موجود ہر مسلمان پر لازم   ہے کہ اس کو اس عمل سے   روکے، اگر وہ باز  نہ آئے تو  بزور و طاقت اُسے روکے، لیکن جان  سے  نہ   مارے۔

ہاں جو شخص قرآنِ  کریم کی اِہانت کرتے ہوئے اس کو جلا  چکا ہو اور  بعد  میں دیگر مسلمانوں کو اس عمل کا علم  ہو تو اب عوام  کے لیے اس شخص کو کسی قسم کی سزا دینے  کی اجازت نہیں،بلکہ  حکومت سے رجوع کریں، حکومتِ  وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے شخص کو  قانون کے مطابق سخت  سزا دے ، تعزیراتِ پاکستان کی  دفعہ 295 بی کے تحت توہینِ قرآن کے مجرم کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے،عوام کو چاہیے کہ وہ اس شخص کو پکڑ کر حکومت  کے  متعلقہ ادارے کے حوالہ کردیں ، عوام کے لیے  اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ خود اس شخص کو کوئی  سزا دیں ۔

الفتاوى الهندية (2/ 167):

"(فصل في التعزير) وهو تأديب دون الحد و يجب في جناية ليست موجبة للحد كذا في النهاية. وينقسم إلى ما هو حق الله وحق العبد. والأول يجب على الإمام ولا يحل له تركه إلا فيما إذا علم أنه انزجر الفاعل قبل ذلك ويتفرع عليه أنه لا يجوز إثباته بمدع شهد به فيكون مدعيا شاهدا إذا كان معه آخر كذا في النهر الفائق.

قالوا: لكل مسلم إقامة التعزير حال مباشرة المعصية وأما بعد المباشرة فليس ذلك لغير الحاكم قال في القنية رأى غيره على فاحشة موجبة للتعزير بغير المحتسب فللمحتسب أن يعزر المعزر إن عزره بعد الفراغ منها، كذا في البحر الرائق."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 65):

"(و يقيمه كل مسلم حال مباشرة المعصية) قنية (و) أما (بعده) ف (ليس ذلك لغير الحاكم) والزوج والمولى كما سيجيء.

(قوله: وأما بعده إلخ) تصريح بالمفهوم. قال في القنية؛ لأنه لو عزره حال كونه مشغولا بالفاحشة فله ذلك؛ لأنه نهي عن المنكر وكل واحد مأمور به، وبعد الفراغ ليس بنهي؛ لأن النهي عما مضى لا يتصور فيتمحص تعزيرا، وذلك إلى الإمام. اهـ.

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 719)

ومثله في الأشباه حيث قال: يكفر بوضع الرجل على المصحف مستخفا وإلا فلا. اهـ.

ويظهر لي أن نفس الوضع بلا ضرورة يكون استخفافًا و استهانةً له، ولذا قال: لو لم يكن مراده التخويف ينبغي أن يكفر: أي لأنه إذا أراد التخويف يكون معظما له لأن مراده حملها على الإقرار بأنها فعلت، لعلمه بأن وضع الرجل أمر عظيم لا تفعله فتقر بما أنكرته، أما إذا لم يرد التخويف فإنه يكفر لأنه أمرها بما هو كفر لما فيه من الاستخفاف والاستهانة، ويدل على ذلك قول من قال يكفر من صلى بلا طهارة أو لغير القبلة لأنه استهانة فليتأمل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں