بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن خوانی کے لیے لوگوں کو جمع کرنا / تعزیت کے لیے آنے والوں کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا


سوال

1. آج کل جو یہ بات رائج ہو رہی ہے اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ میت کے جنازے یا تدفین کے بعد اعلان ہوتا ہے الفاظ کے تغیرو تبدل کے ساتھ (کہ کل قل شریف ہوگا کی بجائے)کل قرآن خوانی ہوگی اور دس یا کسی بھی متعینہ وقت میں دعاءِ خیر ہوگی۔

وضاحت طلب بات یہ ہے کہ کیا اس طرح تداعی کی صورت میں جانا اور شامل ہونا اور میت کے اہلِ خانہ کا ایسا کرنا درست ہے؟

2.نیز بعض مقامات بالخصوص دیہاتوں میں تعزیت کے لیے آنے والے اور وہاں پر موجودین کا بار بار ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھنا رائج ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟

جواب

کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا) سنت سے ثابت ہے، تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے۔

اسی طرح شریعت میں ایصالِ ثواب بھی  مستحب ہے، لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔ لہذاکسی بھی مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے اعزہ و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنااور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن مروجہ طریقہ پر کوئی بھی دن متعین کرکے اجتماعی طور پر تعزیت کے لیے جمع ہونایا لوگوں کو جمع کرنا اور اس کا اعلان کرنا، پھر متعین دن میں لوگوں کا جمع ہوکر  اجتماعی قرآن خوانی کرنا، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور یوں لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کیاگیا ہو، ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے، ایک مزید خرابی اس میں یہ بھی ہے کہ تعزیت کے لیے آنے والوں کو اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ قرآن خوانی بذات خود ممنوع نہیں ہے ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی جائز ہے، بشرطیکہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!‘‘

سوم:… یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے  لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔

(فتاویٰ بزازیہ)

(آپ کے مسائل اور ان کاحل4/429،مکتبہ لدھیانوی)

چہارم:...  قرآن خوانی کے لیے کوئی دن خاص کرکے (مثلاً سوئم، چہلم وغیرہ) اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا جائے تو بھی درست نہیں ہوگا۔

لہٰذا اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور  اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو  یہ جائز ہے۔ لیکن  جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔

2. تعزیت کے دوران ہر آنے والے کالوگوں کے ساتھ مل کرہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا  شرعاً درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی  تو کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں اسے ضروری سمجھا جاتاہو وہاں اس طریقہ کو ترک کرنا ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں