بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم کے اعراب کو غلط کہنا


سوال

قرآن کے اعراب کو غلط کہنے والے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ پاک تو ابتدا سے ہی اعراب سمیت پڑھا جاتاہے، البتہ ابتدا  زمانے میں قرآنِ پاک کے نسخوں اور تحریرات میں عربی کے قدیم رسم الخط کے مطابق نقوش پر نقطے اور  اعراب نہیں لگے  ہوتے تھے، لوگ نقطے اور اعراب لگائے بغیر ہی الفاظ کا تلفظ سمجھ جاتے تھے، چناں چہ قرآنِ مجید بھی پڑھ لیا کرتے تھے،  جیساکہ آج بھی عربی زبان کے ماہرین (خواہ وہ اصلًا عجمی ہوں) کوئی بھی عربی عبارت اعراب  لگائے بغیر بے تکلف پڑھ لیتے ہیں، لیکن عامی شخص کے لیے عبارت پر اعراب لگائے بغیر پڑھنا مشکل ہوتاہے، لیکن جب عجمی لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے اور ان کو بغیر اعراب اور نقطوں کے قرآن پڑھنے میں مشقت ہونے لگی، تو  حضرت ابو الاسود دؤلی رحمہ اللہ  نے قرآنِ پاک پر نقطے اور اعراب  ( حرکات)  لگانے کی ابتدا  فرمائی، اس کے بعد حجاج بن یوسف کے حکم سے تین حضرات  (حسن بصری، یحیی بن یعمر، نصر بن  عاصم رحمہم اللہ)  نے اس کی تکمیل فرمائی۔ (ماخوذ از  ’’علوم القرآن‘‘،  مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ)

اب شرقًا وغربًا اسی طرح کے  قرآن کریم کے نسخے  متداول ہیں، اس پر امت کا اجماع ہے، لہذا قرآنِ کریم کے اعراب کو غلط کہنا جائز نہیں ہے۔

باقی مذکورہ شخص قرآن کے اعراب کو غلط کس معنی  میں کہتا ہے؟  اس کی بات کا مقصد اور وضاحت اسی سے معلوم کرکے وہ تفصیل سے لکھ کر ارسال کردیں، اس کے بعد اس  شخص کا حکم بتایا جاسکے گا۔ فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں