بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنِ مجید کا ایک رکوع یاد کرنے کی نذر ماننا اور قسم کھا کر توڑ دینا نیز زبان سے قسم کے الفاظ ادا کرنا لیکن دل میں قسم کی نیت نہ کرنے کا حکم اور نفس کی اصلاح کا بہتر طریقہ نیز بدعتیوں کو سلام کرنے کا طریقہ اور عالم بننے کے لیے والدین کی نافرمانی کا حکم


سوال

1. ایک بندے نے قسم کھائی کہ "آج کےبعد اگر میں موبائل کا غلط استعمال کروں گا تو میں ایک رکوع قرآن مجید کایاد کروں گا" پھر اس نے قسم توڑ دی تو اب وہ کتنے روزے رکھے گا؟اور موبائل کا استعمال تو وہ کئی بار غلط کرتا ہے ،تو کیا وہ ہر بار تین روزے اور ایک رکوع قرآن مجید کے یاد کرے گا یا صرف ایک بار؟

2. اگر ایک بندہ یہ کہہ دے کہ"میں فلاں کام نہیں کروں گا اگر میں نےکیا تو تین روزے اور پانچ سو روپے صدقہ اور پانچ سو رکعت نوافل پڑھوں گا" پھر اس نے وہ کام کیا ،بلکہ بار بارکیا تو اب وہ کتنا صدقہ دےگا کتنے روزے رکھے گا؟ نوافل کتنے پڑھے گا؟  کیا وہ ان تین روزوں کے علاوہ قسم توڑنے کے بھی تین روزے رکھے گا یا نہیں؟

3.کیا زبان سے قسم کے الفاظ بولنا لیکن دل میں ارادہ نہ کرنا  تو قسم ہو جا تی  ہے؟

4. میرے والد صاحب مجھے سکول پڑھا رہے ہیں حالاں کہ مجھے عالم بننے کا شوق ہے اور میں گیارہ  جماعتیں پڑھ چکا ہوں ،پہلے مجھے معلوم نہ تھا کہ اسکول کا نظام ویسے ہی بکواس ہے اس میں محض غباروں میں ہوا بھرنا اور لغویات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،لیکن اب مجھے جب معلوم ہوا ،تھوڑا بڑا ہوگیا اچھے برے کی تمییز ہونے لگی ،تو میں نے والد صاحب کو بتایا کہ میں علمِ دین حاصل کرنا چاہتا ہو ، لیکن میرے والد کے سر پر پیسوں کا بت سوار ہے ، وہ  مجھے ڈاکٹر بنانے پر تُلے ہوئے ہیں ،تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟میں عالم کیسے بنوں؟

5. میں اپنے نفس کی اصلاح کیسے کروں؟ میری زبان پرقسم کے الفاظ بیٹھ گئے ہیں ،بات بات پر قسم کھاتا ہو ں اس سے کیسے جان چھڑاؤں ،اس کی جگہ کون سا لفظ استعمال کرو کہ گناہ نہ ہو ؟

6. بدعتیوں کو "السلام علی من اتبع الھدیٰ" کہنا کیسا ہے؟

جواب

1. واضح رہے کہ نذر  کے منعقد ہونے لے لیےمنجملہ شرائط میں سے یہ بھی شرط ہے کہ   نذر عبادت کی ہو، اور وہ عبادت مقصودہ ہو، اور  اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو  یا وہ عبادت تو ہو لیکن عبادت مقصودہ نہ ہو تو اس کی نذر بھی صحیح نہیں، لہذاصورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ بندہ نے موبائل کو غلط استعمال کرنے کی وجہ سے قرآنِ مجید کا ایک رکوع یاد کرنے کی نذر مانی تھی، تو چوں کہ اس قدر قرآن یاد کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے، جس سے نماز ادا ہوجائے، لہٰذا یہ  نذر منعقد ہو جائے گی اور مذکورہ شخص کو اس نذر کا پورا کرنا لازمی ہوگا ، یعنی کبھی بھی وہ ایک رکوع یاد کرلے ، اس پر کسی قسم کے روزہ رکھنا ضروری نہیں ہوں گے۔

2. واضح رہے کہ نذر کی شرائط میں سے ہے کہ منذور بہ (جس کی نذر مانی جارہی ہے) قربت اور عبادتِ مقصودہ ہو ، غیر مقصودہ نہ ہو ، جیسے نماز ، روزہ ، حج ، صدقہ ، اعتکاف وغیرہ، دوسری شرط یہ ہے کہ منذور بہ (جس چیز کی نذر ماننا مقصود ہے) کی جنس سے کوئی فرد فرض یا کم از کم کوئی فرد واجب ہو ، فرض کی مثال جیسے نماز ، روزہ اور حج کرنے کی نذر ماننا ، مثلا کسی نے پندرہ دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ، تو یہ درست ہے ؛ کیوں کہ اس کی جنس سے رمضان کا روزہ فرض ہے وغیرہ، اسی طرح نذر منعقد ہونے کے لیے جہاں دوسری شرائط ہیں ، وہاں ایک شرط یہ بھی ہے کہ منذور بہ میں التزام یعنی نذرکے الفاظ میں غیر لازم چیز کو لازم کرنے کے معنی پایا جائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص نے یہ جملہ کہا "میں فلاں کام نہیں کروں گا ،اگر میں نےکیا تو تین روزے اور پانچ سو روپے صدقہ اور پانچ سو رکعت نوافل پڑھوں گا" چوں کہ وه باربار مذكوره كام كرچكا ہے ، تو  مذکورہ شخص کےذمہ صرف ایک مرتبہ نذر کا پورا کرنا لازم ہوگا ، اور اس کو پورا کرنے کے لیے پوری زندگی موجود ہے ۔

3.  صورتِ  مسئولہ میں بلانیت و ارادہ زبان سے الفاظِ قسم نکلنے کی دو صورتیں ہیں: ایک صورت   تو یہ ہے کہ کہنا کچھ چاہ رہا تھا،  لیکن زبان سے قسم کے الفاظ نکل گئے تو یہ یمینِ لغو شمار  ہو گی ، اس   میں  کفارہ  نہیں ہے۔ اور  دوسری صورت  یہ ہے کہ الفاظ بالقصد (ارادہ و نیت کے ساتھ) کہے،  لیکن قسم کی نیت نہیں تھی، تو اس صورت میں نیت کا اعتبار نہیں ہے، یعنی:  قسم منعقد ہوگی اور کفارہ بھی لازم ہو گا۔

4.  بہتر یہ ہے کہ والدین کو راضی کرکے علمِ دین حاصل  کریں، لیکن اگر والدین ضعیف ہوں اور  ان کی خدمت کے لیے بھی کوئی نہ ہو اور ان کے نان و نفقہ کا بندوبست بھی اسی بیٹے کے ساتھ مربوط ہو تو ایسی صورت میں والدین کی خدمت اور ان کے نان ونفقہ کا بندوبست کرنا بیٹے پر لازمی ہے ، البتہ  اگر مکمل عالم   بننے کی ترتیب نہ ہو تو  ضرورت کے بقدر علم اپنے محلہ کے امام صاحب یا دیگر علماء کرام سے حاصل  کرتے رہیے۔

5. ہر انسان پر اپنے نفس کی اصلاح واجب ہے، اس کے لیے جس طرح اور ذرائع ہیں اسی طرح کسی اللہ کے نیک بندے سے بیعت ہوجانا بھی ایک مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے، کسی متبعِ شریعت بزرگ کو اپنا بڑا بناکر اس کی راہ نمائی اور مشورے سے امور انجام دینے میں غلطی اور نقصان کا امکان بہت کم ہوجاتاہے، لہٰذا اگر کسی کو ایسے دین دار اساتذہ اور والدین میسر ہیں جو اس کی ہر موڑ پر راہ نمائی کرتے ہوں، وہ ان کا فرماں بردار ہو اور ان سے گہرا ربط رکھتاہو تو اسے باقاعدہ بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یہ بات شاذ ونادر کسی کو میسر ہوتی ہے، لہذا بہتر  یہ ہے کہ کسی متبعِ سنت و شریعت بزرگ سے باقاعدہ اصلاحی تعلق قائم کرلیاجائے۔

واضح رہے کہ زیادہ قسمیں  کھانا شرعًا پسندیدہ نہیں،  اللہ رب العزت کے نام کی حرمت بہت زیادہ ہے،بات بات پر قسم اٹھانے سے اللہ کے نام کی حرمت وعظمت دل میں کم ہوجاتی ہے،پھر انسان قسم توڑنے میں جری ہوجاتاہےاور اللہ کے نام کی حرمت وعظمت کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سےگناہ گار ہوتا ہے،حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیزکرو کیوں کہتجارتی معاملا تمیں زیادہ قسمیں کھانا کاروبار کو رواج دیتا ہے مگرپھر برکت کھو دیتا ہے، اس لئے زیادہ قسمیں کھانا مناسب نہیں ، لہذا سائل بھی کوشش کرے کہ قسم کے الفاظ کا استعمال ترک کردے۔

6. مذکورہ جملہ کے ذریعہ بدعتیوں کو سلام کرنا درست نہیں ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ." (الحج:29)

"لَا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ ٱلْأَيْمَـٰنَ ۖ فَكَفَّـٰرَتُهُۥٓ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَـٰكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍۢ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّـٰرَةُ أَيْمَـٰنِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَٱحْفَظُوٓا۟ أَيْمَـٰنَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ."(المائدة:89)

 ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں فرماتے تمہاری قسموں میں لغو قسم پر لیکن مواخذہ اس پر فرماتے ہیں کہ تم قسموں کو مستحکم کرو۔ سو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ یہ کفارہ ہے تمھاری قسموں کا جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو۔"

(تفسیر بیان القرآن،ج:3،  ص:510، ط:مکتبہ رحمانیہ)

"وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ . "(الأعراف:205)

"صحيح البخاري"میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن يعصيه فلا يعصه."

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب النذر في الطاعة، رقم الحديث:6696، ج:8، ص:142، ط:دار طوق النجاة)

"سنن أبي داود" میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من نذر نذرا لم يسمه فكفارته كفارة يمين، ومن نذر نذرا في معصية فكفارته كفارة يمين، ومن نذر نذرا لا يطيقه فكفارته كفارة يمين، ‌ومن ‌نذر ‌نذرا ‌أطاقه ‌فليف ‌به."

(‌‌أول كتاب الأيمان والنذور، باب النذر لا يسمى، رقم الحديث:3323، ج:5، ص:212، ط:دار الرسالة العالمية)

"مصنف عبد الرزاق" میں ہے: 

"عن يعلى بن عطاء قال: أخبرني من سمع أبا هريرة يقول: إنما الصوم في الكفارة لمن لم يجد."

(‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب من يجب عليه التكفير، رقم الحديث:16052، ج:8، ص:501، ط:توزيع المكتب الإسلامي بيروت)

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"وعن أبي قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إياكم ‌وكثرة ‌الحلف في البيع فإنه ينفق ثم يمحق."

(‌‌كتاب البيوع، ‌‌باب المساهلة في المعاملات، ‌‌الفصل الأول، رقم الحدیث:2793، ج:2، ص:850، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:اپنی تجارتی زندگی میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیزکرو کیونکہ(تجارتی معاملا ت)میں زیادہ قسمیں کھانا کاروبار کو رواج دیتا ہے مگرپھر برکت کھو دیتا ہے۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في شرح الملتقى ‌والنذر ‌عمل ‌اللسان ....... وسواء قصد ما تلفظ به أو لا ولهذا قال في الولوالجية: رجل أراد أن يقول لله علي صوم يوم فجرى على لسانه صوم شهر كان عليه صوم شهر بحر. اهـ. ح، وكذا لو أراد أن يقول كلاما فجرى على لسانه النذر لزمه لأن هزل النذر كالجد كالطلاق فتح."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج:2، ص:433، ط:سعيد)

"الفتاوى البزازية على هامش الفتاوى الهندية" میں ہے:

"إن عوفيت صمت كذا، لم يجب مالم يقل لله علي، وفي الاستحسان  يجب، وإن لم يكن تعليقا لايجب قياسا واستحسانا، كما إذا قال أنا أحج فلا شيء، ولو قال إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل يجب عليه الحج."

(كتاب الأيمان، الفصل الثالث في النذر، ج:4، ص:272، ط:رشيدية)

"فتح القدير للكمال ابن الهمام" میں ہے:

"(وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر) لإطلاق الحديث ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده (وعن أبي حنيفة - رحمه الله - أنه رجع عنه وقال: إذا قال: إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه أجزأه من ذلك كفارة يمين. وهو قول محمد - رحمه الله -) ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضًا. وهذا إذا كان شرطًا لايريد كونه لأن فيه معنى اليمين و هو المنع و هو بظاهره نذر فيتخير و يميل إلى أي الجهتين شاء، بخلاف ما إذا كان شرطًا يريد كونه كقوله: إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه و هذا التفصيل هو الصحيح،فإذا قال: إن فعلت كذا فعلي حجة أو صوم سنة إن شاء حج أو صام سنة و إن شاء كفر. فإن كان فقيرًا صار مخيرًا بين صوم سنة و صوم ثلاثة أيام، و الأول و هو لزوم الوفاء به عينًا هو المذكور في ظاهر الرواية. و التخيير عن أبي حنيفة في النوادر...و اختار المصنف و المحققون أن المراد بالشرط الذي تجزئ فيه الكفارة الشرط الذي لايريد كونه مثل دخول الدار و كلام فلان، فإنه إذا لم يرد كونه يعلم أنه لم يرد كون المنذور حيث جعله مانعًا من فعل ذلك الشرط لأن تعليق النذر على ما لايريد كونه بالضرورة يكون لمنع نفسه عنه فإن الإنسان لا يريد إيجاب العبادات دائما وإن كانت مجلبة للثواب مخافة أن يثقل فيتعرض للعقاب، ولهذا صح عنه صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن النذر وقال إنه لا يأت بخير الحديث، وأما الشرط الذي يريد كونه مثل قوله إن شفى الله مريضي أو قدم غائبي أو مات عدوي فلله علي صوم شهر فوجد الشرط لايجزيه إلا فعل عين المنذور.لأنه إذا أراد كونه كان مريدا كون النذر فكان النذر في معنى المنجز فيندرج في حكمه وهو وجوب الإيفاء به فصار محمل ما يقتضي الإيفاء المنجز والمعلق المراد كونه، ومحمل ما يقتضى إجزاء الكفارة المعلق الذي لا يراد كونه وهو المسمى عند طائفة من الفقهاء نذر اللجاج. ومذهب أحمد فيه كهذا التفصيل الذي اختاره المصنف."

(‌‌كتاب الأيمان، فصل في الكفارة ، ج:5، ص:93، ط:دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوبا (إن وجد) الشرط (و) إن علقه (بما لم يرده كإن زنيت بفلانة) مثلا فحنث (وفى) بنذره (أو كفر) ليمينه (على المذهب) لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه فيخير ضرورة."

"(قوله بشرط يريده إلخ) انظر لو كان فاسقا يريد شرطا هو معصية فعلق عليه كما في قول الشاعر علي إذا ما زرت ليلى بخفية … زيارة بيت الله رجلان حافيا. فهل يقال ‌إذا ‌باشر ‌الشرط يجب عليه المعلق أم لا؟ ويظهر لي الوجوب لأن المنذور طاعة وقد علق وجوبها على شرط فإذا حصل الشرط لزمته، وإن كان الشرط معصية يحرم فعلها .... ولذا صح النذر في قوله: إن زنيت بفلانة."

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:739، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوبا (إن وجد) الشرط (و) إن علقه (بما لم يرده كإن زنيت  بفلانة) مثلا فحنث (وفى) بنذره (أو كفر) ليمينه (على المذهب) لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه فيخير ضرورة."

"(قوله : ثم إن المعلق إلخ) اعلم أن المذكور في كتب ظاهر الرواية أن المعلق يجب الوفاء به مطلقا: أي سواء كان الشرط مما يراد كونه أي يطلب حصوله كإن شفى الله مريضي أو لا كإن كلمت زيدا أو دخلت الدار فكذا، وهو المسمى عند الشافعية نذر اللجاج وروي عن أبي حنيفة التفصيل المذكور هنا وأنه رجع إليه قبل موته بسبعة أيام وفي الهداية أنه قول محمد وهو الصحيح. اهـ. ومشى عليه أصحاب المتون كالمختار والمجمع ومختصر النقاية والملتقى وغيرها، وهو مذهب الشافعي، وذكر في الفتح أنه المروي في النوادر وأنه مختار المحققين وقد انعكس الأمر على صاحب البحر، فظن أن هذا لا أصل له في الرواية، وأن رواية النوادر أنه مخير فيهما مطلقا وأن في الخلاصة قال: وبه يفتى وقد علمت أن المروي في النوادر هو التفصيل المذكور، وذكر في النهر أن الذي في الخلاصة هو التعليق بما لا يراد كونه فالإطلاق ممنوع. اهـ. والحاصل: أنه ليس في المسألة سوى قولين الأول ظاهر الرواية عدم التخيير أصلا والثاني التفصيل المذكور وأما ما توهمه في البحر من القول الثالث وهو التخيير مطلقا وأنه المفتى به فلا أصل له كما أوضحه العلامة الشرنبلالي في رسالته المسماة تحفة التحرير فافهم."

(كتاب الأيمان، ج:3، ص:738، ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو نذر التسبيحات دبر الصلاة لم يلزمه، ولو نذر أن يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كل يوم كذا لزمه وقيل لا."

"(قوله ولو نذر التسبيحات) لعل مراده التسبيح والتحميد والتكبير ثلاثا وثلاثين في كل وأطلق على الجميع تسبيحا تغليبا لكونه سابقا وفيه إشارة إلى أنه ليس من جنسها واجب، ولا فرض وفيه أن تكبير التشريق واجب على المفتى به وكذا تكبيرة الإحرام، وتكبيرات العيدين فينبغي صحة النذر به بناء على أن المراد بالواجب هو المصطلح . قلت: لكن ما ذكره الشارح ليس عبارة القنية وعبارتها كما في البحر، ولو نذر أن يقول دعاء كذا في دبر كل صلاة عشر مرات لم يصح (قوله لم يلزمه) وكذا لو نذر قراءة القرآن وعلله القهستاني في باب الاعتكاف بأنها للصلاة وفي الخانية ولو قال: علي الطواف بالبيت والسعي بين الصفا والمروة أو علي أن أقرأ القرآن إن فعلت كذا لا يلزمه شيء. قلت: وهو مشكل فإن القراءة عبادة مقصودة ومن جنسها واجب، وكذا الطواف فإنه عبادة مقصودة أيضا ثم رأيت في لباب المناسك قال في باب أنواع الأطوفة: الخامس طواف النذر وهو واجب ولا يختص بوقت فهذا صريح في صحة النذر به (قوله لزمه) لأن من جنسه فرضا وهو الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم مرة واحدة في العمر وتجب كلما ذكر وإنما هي فرض عملي قال ح: ومنه يعلم أنه لا يشترط كون الفرض قطعيا."

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:738، ط:سعيد)

"البحر الرائق شرح كنز الدقائق"میں ہے:

" واعلم بأنهم صرحوا بأن ‌شرط ‌لزوم ‌النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه."

(کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، فصل ما يوجبه العبد على نفسه، ج:2، ص:316، ط:دار الکتاب الإسلامي)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"وروى ابن سماعة عن أبي يوسف إذا قال رجل: امرأة ‌زيد ‌طالق ‌ثلاثا ورقيقه أحرار، وعليه المشي إلى بيت الله - جل شأنه - إن دخل هذه الدار؛ فقال زيد: نعم - كان كأنه قد حلف بذلك كله."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج:5، ص:89، ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وكفارته) ‌هذه ‌إضافة ‌للشرط ‌لأن ‌السبب ‌عندنا ‌الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام."

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:725، 726، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"وکفارته تحریر رقبة أو إطعام عشرۃ مساکین أوکسوتهم، وإن عجز عنها وقت الأداء صام ثلاثة أیام ولاء."

(‌‌كتاب الأيمان، ج:3، ص:725، ط:سعید)

"الفتاوی التاتارخانیة" میں ہے:

"کفارۃ الیمین ما ذکرہ اللّٰہ تعالیٰ … إن کان الحالف موسرًا فکفارته أحد الأشیاء الثلاثة: ولا یجزیه الصوم، وإن کان معسرًا فکفارته الصوم."

(كتاب الأيمان، الفصل السابع والعشرون:في كفارة اليمين، رقم:9427، ج:6، ص:300، ط:مكتبة زكريا بديوبند الهند)

"الفتاوی الهندية" میں ہے:

"ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث."

(کتاب الأیمان، الباب الثاني، الفصل الأول في تحليف الظلمة، ج:2، ص:52، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي البغية: ‌كفارات ‌الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي."

(كتاب الأيمان، ج:3، ص:714، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"وركنها اللفظ المستعمل فيها."

(کتاب الأیمان، ج:3، ص:704، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"وله ‌الخروج ‌لطلب ‌العلم الشرعي بلا إذن والديه لو ملتحيا وتمامه في الدرر."

"(قوله وله الخروج إلخ) أي إن لم يخف على والديه الضيعة بأن كانا موسرين، ولم تكن نفقتهما عليه."

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:408، ط:سعيد)

"الفتاوى الهندية" میں ہے:

"وأما التسليم على أهل الذمة فقد اختلفوا فيه قال بعضهم: لا بأس بأن يسلم عليهم، وقال بعضهم: لا يسلم عليهم، وهذا إذا لم يكن للمسلم حاجة إلى الذمي، وإذا كان له حاجة فلا بأس بالتسليم عليه، ولا بأس برد السلام على أهل الذمة، ولكن لا يزاد على قوله وعليكم، قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى -: إن مررت بقوم وفيهم كفار فأنت بالخيار إن شئت قلت: السلام عليكم وتريد به المسلمين، وإن شئت قلت: السلام على من اتبع الهدى، كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب السابع في السلام، ج:5، ص:325، ط:رشيدية)

’’امداد الفتاویٰ‘‘میں ہے:

"سوال (1433): صرف اظہارِ ارادہ سے نذر منعقد ہوجاتی ہے یا نہیں؟ مثلاً کسی نے کہا "ہمارا ارادہ ہے ایک بکرا ذبح کراویں اور صدقہ کردیں اور شاید ہمارا لڑکا اچھا ہوجائے"، یا یوں کہا کہ "ہم ہر مہینے دو چار مسکین کھلا دیا کریں گے"، تو اس سے نذر ہوگی یا نہیں؟ اردو میں نذر کا صیغہ کیا ہے؟

الجواب: في الدر المختار: الأيمان ‌مبنية ‌على ‌العرف، فما تعورف الحلف به فيمين وما لا فلا. اور نذر حکمِ یمین میں ہے، چناں چہ  علي نذرکو صیغۂ ایمان سے درمختار میں لکھا ہے، اس بناء پر جو صیغے عرفاً نذر کے سمجھے جاتے ہیں، اُن سے نذر منعقد ہوگی اور جو صیغے عرفاً اس میں مستعمل نہیں ہیں اُن سے نذر نہ ہوگی، اس لیے صیغۂ اول کہ "ہمارا ارادہ ہے الخ"، نذر نہیں ہے، اور دوسرا صیغہ کہ "ہم ہر مہینے الخ"، نذر ہے۔ واللہ اعلم"

 

(کتاب النذور، اردو میں نذر کا صیغہ، ج:5، ص:523، ط:مکتبہ رشیدیہ)

حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"میں فتویٰ تو یہی دیتا ہوں کہ بیعت ہونا فرض نہیں ہے، بیعت سنتِ مؤکدہ بھی نہیں ہے، اصلاح فرض ہے، لیکن بیعت برکت کی چیز ہے۔"

(راہ سلوک کے آداب اور حقوق شیخ، ص:30، ط : ادارہ تالیفات اختریہ)

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تزکیہ نفس کو فرضِ عین فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے:

"تزکیہ فعلِ متعدی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسا فعل نہیں جو صرف اپنے فاعل پر تمام ہو جیسا کہ فعلِ لازم کا خاصہ ہے، بلکہ ایک مُزَكِّي اور  مُرَبِّي کی ضرورت ہے جو تزکیہ اور تربیت کرے، پس اپنی اصلاح کوئی انسان خود نہیں کرسکتا، کسی مُصلِح کی اشد ضرورت ہے اور چوں کہ فرض کا مقدمہ فرض ہوتا ہے، اس لیے مُصلِح تلاش کرنا اور اس کی صحبت حاصل کرنا بھی فرض ہوا۔"

(اصلاحِ اخلاق، ص:6، ط: خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)

حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"تمام علماء و فقہاء کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے، یہی فریضہ ہے جس کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق کہا جاتا ہے، اور یہی تصوف کا حاصل و مقصود ہے۔

جس طرح ہر مرد و عورت پر اپنے اپنے حالات و مشاغل کی حد تک اُن کے فقہی مسائل جاننا فرض ہے اور پورے فقہ کے مسائل میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا اور مفتی بننا سب پر فرض نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے، اسی طرح جو اَخلاقِ حمیدہ کسی میں موجود نہیں، انہیں حاصل کرنا اور جو رَذائل اس کے نفس میں چُھپے ہوئے ہیں اُن سے بچنا، تصوف کے جتنے علم پر موقوف ہے، اس علم کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور پورے علمِ تصوف میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا کہ دوسروں کی تربیت بھی کرسکے، یہ فرضِ کفایہ ہے۔

جس طرح قرآن و سنت سے فقہی مسائل و احکام نکالنا اور حسبِ حال شرعی حکم معلوم کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں، بلکہ راہ نمائی کے لیے استاذ یا فقیہ اور مفتی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، اسی طرح باطنی اخلاق کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ایک نازک اور قدرے مشکل کام ہے، جس میں بسا اوقات مجاہَدوں، ریاضتوں اور طرح طرح کے نفسیاتی علاجوں کی ضرورت پیش آتی ہے، اور کسی ماہر کی رہنمائی کے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا، اس نفسیاتی علاج اور رہنمائی کا فریضہ شیخ و مرشد انجام دیتا ہے۔ اسی لیے ہر عاقل و بالغ مرد و عورت کو اپنے تزکیہ اخلاق کے لیے ایسے شیخ و مرشد کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو قرآن و سنت کا متبع ہو، اور باطنی اخلاق کی تربیت کسی مستند شیخ کی صحبت میں رہ کر حاصل کرچکا ہو۔

بیعت سنت ہے، فرض و واجب نہیں: بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مرشد اور اس کے شاگرد (مرید) کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے، مرشد یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے گا، اور مرید وعدہ کرتا ہے کہ مرشد جو بتلائے گا اس پر عمل ضرور کرے گا، یہ بیعت فرض و واجب تو نہیں، اس کے بغیر بھی مرشد کی رہنمائی میں اصلاحِ نفس کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، لیکن بیعت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور معاہدہ کی وجہ سے فریقین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی قوی رہتا ہے، اس لیے بیعت سے اس مقصد کے حصول میں بہت برکت اور آسانی ہوجاتی ہے۔"

(امداد الاحکام، ج:1، ص:39، 47، 48، ط : مکتبہ دارالعلوم کراچی)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"کامل شیخ کی پہچان یہ ہے کہ شریعت کا پورا متبع ہو، بدعت اور شرک سے محفوظ ہو، کوئی جہل کی بات نہ کرتا ہو، اس کی صحبت میں بیٹھنے کا یہ اثر ہو کہ دنیا کی محبت گھٹتی جائے اور حق تعالیٰ کی محبت بڑھتی جائے، اور جو مرض باطنی بیان کرو اس کو بہت توجہ سے سن کر اس کا علاج تجویز کرے اور جو علاج تجویز کرے اس علاج سے دم بدم نفع ہوتا چلا جائے، اور اس کے اتباع کی بدولت روز بروز حالت درست ہوتی چلی جائے۔ یہ علامت ہے شیخِ کامل کی، ایسا شخص اگر مل جائے تو وہ اکسیرِ اعظم ہے۔"

(اشرف السوانح، ج:2، ص:248، ط : ادارہ تالیفات اشرفیہ)

عالمِ ربّانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

"بیعت سنت ہے، واجب نہیں، اس واسطے کہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی اور اُس کے سبب سے حق تعالیٰ کی نزدیکی چاہی اور کسی دلیلِ شرعی نے تارکِ بیعت کے گنہگار ہونے پر دلالت نہ کی اور ائمہ دین نے تارکِ بیعت پر انکار نہ کیا، تو یہ عدمِ انکار گویا اجماع ہوگیا اس پر کہ وہ واجب نہیں۔

سنتُ اللہ یوں جاری ہے کہ امور خفیہ جو نفوس میں پوشیدہ ہیں اُن کا ضبط افعال اور اقوال ظاہری سے ہو اور اقوال قائم مقام ہوں امورِ قلبیہ کے، چنانچہ تصدیق اللہ اور اُس کے رسول اور قیامت کی امر مخفی ہے، تو اقرار ایمان کا بجائے تصدیقِ قلبی کے قائم مقام کیا گیا۔ اور چنانچہ رضامندی بائع اور مشتری کی قیمت اور مبیع کے دینے میں امر مخفی پوشیدہ ہے تو ایجاب اور قبول کو قائم مقام رضائے مخفی کے کردیا۔ سو اسی طرح توبہ اور عزم کرنا ترک معاصی کا اور تقویٰ کی رسی کو مضبوط پکڑنا امر مخفی اور پوشیدہ ہے، تو بیعت کو اُس کے قائم مقام کردیا۔"

(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل، ص:18، 19، ط : ایچ ایم سعید)

حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ "رسالة سد الهیعة في حد البیعة" میں ارشاد فرماتے ہیں:

"بیعت کی ایک حقیقت ہے، ایک صورت۔ حقیقت اس کی ایک عقد ہے درمیان مرشد و مسترشد، مرشد کی طرف سے تعلیم کا اور مسترشد کی طرف سے اتباع کا۔ پھر اگر مرشد اور مسترشد کے درمیان نبی اور امتی کا تعلق ہے تو نبی کی طرف سے تبلیغ اور امتی کی طرف سے ایمان، جس میں سب احکام کا التزام اس حقیقت کے تحقق کے لیے کافی ہے، اور یہی محمل ہے اس قول کا اگر ثابت ہو "من لاشيخ له فشيخه الشيطان"، مگر کوئی مسلمان اس کا مصداق نہیں، اور یہ بیعت فرض ہے، اور اس کے بعد بھی اگر کسی خاص حکم یا احکام کا عہد لیا جاوے وہ اس عہد مذکور کی تجدید ہے۔ كما في حديث عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وحوله عصابة من أصحابه: بايعوني۔۔۔ إلى قوله: فبايعناه على ذلك. متفق عليه(مشكاة، كتاب الايمان)۔ اور اگر مرشد و مسترشد دونوں امتی ہیں جیسا بعد عہد نبوت کے اور یہی وہ بیعت ہے جس کا لقب اس وقت پیری مریدی ہے تو وہ بھی مثل صورت ثانیہ کے تقویت ہے عہد اسلامی کی، اور یہ اتباع ہے اس سنت کا جس کو اوپر تجدیدِ عہد کہا گیا ہے، اور چونکہ اس کے فرض یا واجب یا سنت مؤکدہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں، اور حضرت نبویہ سے دین کی حیثیت سے منقول۔ لہٰذا یہ بیعت مستحب ہوگی، اور جس نے اس کے فرض یا واجب ہونے پر آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَسے استدلال کیا ہے، محض بے دلیل اور تفسیر بالرائے ہے، صحیح تفسیر وابتغوا إليه القرب بالطاعاتہے، توسل لغت میں تقرب ہے،ومن ثم فسره البيضاوي بقوله: وسل إلى كذا إذا تقرب إليه من فعل الطاعات وترك المعاصي،۔ اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس پر مداومت ثابت نہیں، ہزاروں مومن اس خاص طریقہ پر اس زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت نہیں ہوئے، اس لیے اس کو سنت مؤکدہ بھی نہ کہیں گے۔ یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے۔

اور ایک اس کی صورت ہے، یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا، یا کپڑا وغیرہ ہاتھ میں دے دینا، تو یہ عمل مباح ہے، لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں، حتیٰ کہ اس کے استحباب کا بھی حکم نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے جو منقول ہے وہ بطور عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطور عادت کے ہے، کیوں کہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی، چنانچہ اسی عادت کی بناء پر اس کو صفقہ بھی کہا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ بیعت معتادہ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں، اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں، لہٰذا اس کا درجہ علماً یا عملاً بڑھانا مثلاً اس کو شرطِ نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا یہ سب غلو فی الدین اور اعتداء حدود ہے، اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق متعارف کسی سے بیعت نہ ہو، اور خود علمِ دین حاصل کرکے یا علماء سے تحقیق کرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے۔ البتہ تجربہ سے یہ کلیاً یا اکثریاً مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور اصلاح کا مطلوب ہے وہ بدون اتباع و تربیت کسی کامل بزرگ کے بلا خطر اطمینان کے ساتھ عادۃً حاصل نہیں ہوتا، مگر اتباع کے لیے بھی صرف التزام کافی ہے، بیعت متعارف شرط نہیں، ولكن هذا آخر الكلام والله أعلم۔ كتبه اشرف علي۔"(النور، ص:8، ذیقعدہ 58ھ)

(امداد الفتاویٰ، ص:246، 247، ط : مکتبہ دار العلوم کراچی)

حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے ہیں، اپنے رسالہ بیعت میں تحریر فرماتے ہیں:

" اے سالکینِ طریق! سن لو، بیعت کا مقصد یہ ہے کہ انسان غفلت اور معصیت سے نکل کر تقویٰ اور طاعت کی زندگی بسر کرنے لگے۔"

(راہ سلوک کے آداب اور حقوق شیخ، ص:28، ط : ادارہ تالیفات اختریہ)

احسن الفتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"بدعتی اور علانیہ فسق میں مبتلا شخص کو سلام کہنا جائز نہیں ،داڑھی ایک مشت سے کم کرنا ، ٹخنے ڈھانکنا ، ٹی وی دیکھنا ، تصویریں بنانا رکھنا، عورتوں کا شریعت کے مطابق پردہ نہ کرنا ، حرام کھانا ، بنک انشورنس و غیره سودی اداروں کی ملازمت، غیبت کرنا یہ سب علانیہ بغاوتیں ہیں، جو شخص ان کا ارتکاب کرتارہتا ہے جب تک وہ ان گناہوں سے تو بہ کا اعلان نہ کرے اسے سلام کہنا جائز نہیں ،البتہ اگر کسی فاسق سے تعارف اور جان پہچان ہے تو سلام کہنا جائز ہے ؛اس لئے کہ ایسی صورت میں سلام نہ کہنے میں کبر کا گمان ہو سکتا ہے نیزا سے دین اور دین داروں سے مزید متنفر کرنے کا باعث ہے ،جواب دینا بہر حال ضروری ہے۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويكره ‌السلام ‌على ‌الفاسق لو معلنا وإلا لا."

"(قوله لو معلنا) .... وفي فصول العلامي: ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم."

(‌‌كتاب البيع، فصل في البيع، ج:6، ص:415، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وينبغي ‌وجوب ‌الرد على الفاسق لأن كراهة السلام عليه للزجر فلا تنافي الوجوب عليه تأمل."

(‌‌كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره، ج:1، ص:618، ط:سعيد)

(کتاب الحظر والاباحۃ، سلام کے احکام، بدعتی اور فاسق کو سلام کہنا، ج:8، ص:135، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں