کچھ بندے رضامندی کے ساتھ پیسے ملاتے ہیں پھر قربانی خریدتے ہیں پھر جنہوں نے پیسے ملائے ہیں سب کا نام لکھ کر قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کا نام نکل آیا قربانی اسی کی ہو جاتی ہے کیا یہ شرعاً جائز ہے ؟
قرعہ اندازی کی یہ صورت ہے کہ سب لوگ پیسے جمع کرائیں اور جس کا نام نکلے اس کو جانور دیا جائے۔ اور باقی لوگ محروم قرار دیے جائیں، تو یہ "جوا" کی ایک صورت ہے ، ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح قربانی کرنا جائز ہے
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا".[البقرة:۲۱۹ ]
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار. قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة".
(سورۃ البقرۃ، آیۃ:۲۱۹ ، باب تحریم المیسر، ج:۲ ؍۱۱ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)
وقال تعالی:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"[المائدة: ۹۰ ]
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر".
(سورۃ المائدۃ، آیۃ:۹۰ ، باب تحریم الخمر، ج:۴ ؍۱۲۷ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101372
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن