بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرعہ اندازی سے نکلنے والے انعام کا حکم/ ایزی پیسہ کی قرعہ اندازی کا حکم


سوال

1۔قرعہ اندازی سے نکلا انعام جائز ہے کہ نہیں؟

2۔ایزی پیسہ میں ایک روپے کی قرعہ اندازی ہوتی ہے، اس سےموبائل نکلتا ہے ،کیا اس میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں ؟

جواب

1۔  قرعہ اندازی  کی مختلف صورتیں ہیں،اگر سوال میں وضاحت کر دی جاتی تو تعیین کے ساتھ جواب دینا آسان ہوتا،بہرحال قرعہ اندازی کے ذریعہ کوئی چیز حاصل کرنا  بعض  صورتوں میں  جائز اور بعض  صورتوں میں ناجائز  ہے،  مثلاً اگر کوئی کمپنی یا ادارہ یا آدمی اپنی طرف  سے کسی کو کوئی انعام  غیر مشروط طور پر دینا چاہتا ہے اور امیدوار کئی  لوگ ہوں تو ایسی صورت میں قرعہ کر کے کسی ایک کو انعام دینا اور لینا جائز ہے۔ اسی طرح بعض کمپنیاں اپنی مصنوعات خریدنے پر کوئی انعام دیتی ہیں، مثلاً: مشروبات وغیرہ کی کوئی کمپنی ، مخصوص مدت میں اپنا مخصوص مشروب خریدنے والے افراد کے لیے انعام کا اعلان کرتی ہے، لیکن یہ انعام بذریعہ قرعہ اندازی دیا جاتاہے،  اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ مشروب تمام خریداروں کو یکساں معمول کی قیمت پر دست یاب ہو اور وہ معیاری بھی ہو، تو بذریعہ قرعہ اندازی انعام لینا جائز ہے۔

بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں قرعہ اندازی کے ذریعہ ملنے والی چیز حلال نہیں ہوتی، جس کی  بعض صورتیں درج ذیل فتاوی میں موجود  ہیں:

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"قرعہ اندازی کے ذریعے خرید و فروخت کرنا
سوال:۔ ایک چیز کی قیمت ایک ہزار روپے ہے، بیس آدمیوں نے آپس میں ۵۰؍۵۰ روپے جمع کر کے یہ فیصلہ کیا کہ قرعہ اندزی کر کے جس کے نام پر چیز نکل آئے تو یہ اس کو دی جائے گی اور باقی ما ندہ افراد محروم رہ جائیں گے، کیا یہ طریقۂ تجارت شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:شریعت ِمطہرہ میں خرید و فروخت کے جو اصول وضع کیے گئے ہیں اُن کے فقدان کی وجہ سے ایسی بیع جائز نہیں، صورتِ مذکورہ میں ایکؔ ممنوع امر یہ ہے کہ اگر نام نکل آئے تو اس کو بیعہ دیا جائے گا ورنہ نہیں جو کہ شرط فاسد ہے۔ اور دوؔ سرا یہ کہ ہر ایک ممبر اپنا نام نکلنے کا متمنّی ہو تا ہے لیکن پتہ نہیں کہ نکلے یا نہیں، تو گو یا بیع علیٰ خطر الوجود ہونے کی وجہ سے قمار لازم آتا ہے جو کہ بنصِ قرآنی ممنوع ہے اس بناء پر مذکورہ معا ملہ شرط فاسد اور قمار کی وجہ سے جائز نہیں۔"

(فتاویٰ حقانیہ ،کتاب البیوع ،قرعہ اندازی کے ذریعے خرید و فروخت کرنا،63/6ط:جامعہ دارلعلوم حقانیہ)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں  ہے:

"ممبروں کا اقساط جمع کرواکر قرعہ اندازی سے انعام وصول کرنا

سوال… ایک کمپنی اپنے مقرّر کردہ ممبروں سے ہر ماہ اقساط وصول کرکے قرعہ اندازی کے ذریعہ ایک مقرّر کردہ چیز دیتی ہے، جس ممبر کا نام نکل جاتا ہے، وہ اپنی چیز وصول کرنے کے بعد قسط جمع کرانے سے بَری ہوجاتا ہے۔ مقرّرہ مدّت تک کچھ ممبر باقی رہ جاتے ہیں، تو کمپنی انہیں مع انعامات ان کی جمع شدہ رقم واپس کردیتی ہے۔ اس صورت میں شراکت جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو کوئی ممبر وہ شراکت درمیان میں ختم کرنا چاہے تو کمپنی اس ممبر کی جمع شدہ رقم سے آدھی رقم اپنے پاس رکھتی ہے اور آدھی ممبر کو واپس کرتی ہے۔ اس صورت میں ممبر کو کیا کرنا چاہیے؟ جب کہ اس کی آدھی رقم غبن ہو رہی ہے؟
جواب… یہ معاملہ بھی جوئے اور سود کی ایک شکل ہے، اس لئے جائز نہیں۔ اور مطالبے پر کمپنی کا آدھی رقم خود رکھ لینا بھی ناجائز ہے۔ افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں نے ایسے دھندے شروع کر رکھے ہیں، مگر نہ حکومت ان پر پابندی لگاتی ہے، نہ عوام یہ دیکھتے ہیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط․․․!"

(آپ کےمسائل کاحل،375/3ط:مکتبہ لدھیانوی)

2۔صورت مسئولہ میں قرعہ اندازی کی جو صورت بیان کی گئی ہے کہ ایزی پیسہ میں ایک روپے کی قرعہ اندازی ہوتی ہے، اس سےموبائل نکلتا ہے یہ  قمارا و رجوا ہے، جو شرعاً ناجائز و حرام ہے،اس سے اجتناب کرنالازم ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"یٰاَ یُّها الَّذیْنَ اٰمَنُوا اِنَّمَا الخَمْرُ وَ المَیْسِرُ وَ الاَنْصَابُ وَ الاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّن عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُم تُفْلِحُوْنَ " (المائدۃ، الآية: 90)

مصنف ابن ابی شیبہ: 

"عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر."

(کتاب البیوع و الأقضية، 483/4، ط: مکتبة الرشد)

عمدة القاری میں ہے:

"(الغرر) ، بفتح الغين المعجمة وبراءين أولاهما مفتوحة وهو في الأصل الخطر، من: غر يغر، بالكسر، والخطر هو الذي لا يدري أيكون أم لا. وقال ابن عرفة: الغرر هو ما كان ظاهره يغر وباطنه مجهول، ومنه سمي الشيطان: غرورا، لأنه يحمل على محاب النفس، ووراء ذلك ما يسوء، قال: والغرور ما رأيت له ظاهر تحبه وباطنه مكروه أو مجهول. وقال الأزهري: بيع الغرر ما يكون على غير عهدة ولاثقة. قال: ويدخل فيها البيوع التي لا يحيط بكنهها المتبايعان. وقال صاحب (المشارق) : بيع الغرر بيع المخاطرة، وهو الجهل بالثمن أو المثمن أو سلامته أو أجله."

 (باب بيع الغرر وحبل الحبلة،11/ 263،ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لأنه يصير ‌قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار ‌قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

 (کتاب الحظر و الإباحة، 403/6، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں