بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاٹری کے ذریعے قرعہ اندازی میں ملنے والے پیسوں کا حکم


سوال

ایک شخص کو قرعہ اندازی میں کچھ رقم ملی ہے،   اب سوال یہ ہے کہ: 1۔کیا اس شخص کا ازخود اس رقم کا کچھ حصہ کارِ خیر یعنی مسجد کی تعمیر وغیرہ میں استعمال کرنا کیسا ہے؟

2۔ایسے شخص سے مسجد کی تعمیر میں اس رقم کے کچھ حصے کے استعمال کرنے کا مطالبہ کیسا ہے؟

اور دونوں صورتوں میں متعلقہ شخص اور مطالبہ کرنے والوں کو اجر ملے گا یا نہیں؟

وضاحت:قرعہ اندازی میں پیسے نکلنے کی یہ صورت تھی کہ  چند لوگوں نے مل کر  مخصوص قیمت پر لاٹری لی تھی،یعنی جس جس شخص نے رقم ادا کی وہ لاٹری کے امیدواروں میں اس کا اندراج ہوگیا، اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے لاٹری لینے والوں میں سے ایک شخص کا نام نکل آیا جس کو لاٹری  کی جمع شدہ رقم تن تنہا  دےدی گئی، جو نام نکلنے والے شخص کی ملکیت بن گئی اورلاٹری کے لیے اندراج کروانے والے دیگر امیدواروں میں سے کسی کو بھی کسی قسم کی رقم واپس نہیں دی گئی، اور مذکورہ لاٹری  کے معاملے میں خارج میں کسی چیز کا وجود نہیں ہوتا،یعنی  کوئی چیز مبیع نہیں ہوتی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چندلوگوں نے مل کر جو مذکورہ لاٹری لی ہے،اور اس پر قرعہ اندازی میں جو انعام نکلا ہےاس کا حکم یہ ہے کہ اس لاٹری کی خریداری میں جتنے لوگوں  نے اپنی اپنی جتنی رقم شامل کی تھی ہر ایک کو اس کی رقم واپس لوٹا دی جائے، اسی طرح قرعہ اندازی میں جس کا نام نکلا ہے،اس کے لیے اس کی اپنی اصل رقم حلال ہے، اس قدر رقم کسی بھی جائز مصرف اور کارِ خیر میں لگا سکتا ہے، البتہ  اصل رقم سے جو زائد رقم ملی ہے اسے مالک کو لوٹانا لازمی ہے، اگر  مالک کو  مذکورہ  رقم  لوٹانا ممکن نہ ہوتو بلانیتِ ثواب غرباء اور فقراء میں وہ رقم  صدقہ کرنالازم ہے،کیوں کہ وہ زائد رقم حرام اور ناجائز ہے،اور حرام رقم کسی بھی کارِ خیر میں نہیں لگائی جاسکتی۔

قرآن  کریم میں ہے:

"إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ." [المائدة:90]

مسند احمد میں ہے:

"عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل أتاه: " اذهب؛ فإن ‌الدال ‌على ‌الخير كفاعله ."

(مسند احمد، ج:38، ص:132، ط:مؤسسة الرسالة)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"و السبيل ‌في ‌الكسب ‌الخبيث التصدق."

(كتاب البيوع، ج:12، ص:172، ط:دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"قوله ‌الحرام ‌ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:98، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: و یستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں