قومی بچت میں پیسہ رکھوانے سے جو ہر مہینے بعد اضافی پیسے ملتے ہیں وہ حرام ہوتے ہیں؟میرے والد کئی مہینوں سے یہ پیسے وصول کرتے ہیں اور وہ مجھے یہ بتاتے ہے کہ یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا،جب مجھے یہ پتہ چل جائے کہ یہ سود ہے یا نہیں ؟پھر میں انہیں مضبوط دلائل کے ساتھ بتاسکوں گا ،میری راہ نمائی فرمائیں۔
قومی بچت اسکیم سے حاصل ہونے والا نفع شرعاً سود ہے،اس لیے کہ قومی بچت اسکیم کے ذریعہ جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے اس میں شرعی اصولوں کی رعایت نہیں کی جاتی، جو رقم اس مد میں جمع کی جاتی ہے، اس کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے اور قرض پر شرط رکھ کر یا معاہدہ کرکے جو اضافی رقم لیتے یا دیتے ہیں وہ سود ہے لہذا قومی بچت اسکیم میں جمع شدہ رقم پر منافع کے نام سے جو اضافی رقم ملتی ہےوہ سود ہے؛ اس لیے نیشنل سیونگ اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری جائز نہیں ہے، اور اس کا نفع حلال نہیں ہے ۔
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".
(الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار إحیاء التراث ، بیروت. مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص: 243، قدیمی)
ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"
فتاوی شامی میں ہے:
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".
(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام ،ج:5،ص: 166،ط. سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100766
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن