بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قنوت نازلہ کا حکم


سوال

میرا سوال قنوت نازلہ کے سلسلہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے دنوں تک لگاتار قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے؟ اور ہم کتنے دن لگاتار پڑھ سکتے ہیں؟اور جو فلسطینیوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے اس کے پیش نظر کیا ہم ہمارے ملک میں ان کے لیے قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر کسی مصیبت میں مبتلا ہو یا دشمن کے جانب سے حملے کا خوف ہو یا کوئی وبائی مرض پھیل چکا ہو تو قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون ہے ۔ قنوتِ نازلہ کے لیےشریعت میں کوئی خاص مدت متعین نہیں ہے ، بلکہ جب  تک حالات سازگار نہ  ہوں پڑھ  سکتے ہیں ، اور حدیث انس رضی اللہ عنہ میں جو حضور اکرم ﷺ سے ایک خاص  موقع پر ایک ماہ قنوت ِنازلہ پڑھنا ثابت ہے  یہ واقعہ ایک ماہ کی تحدید کے لیے نہیں  تھا ، بلکہ جس مقصد  کے لیے  اللہ تعالی کے بنی ﷺ نے قنوتِ نازلہ پڑھی تھی  وہ مقصد  پورا ہو چکا تھا۔

لہذاقنوتِ نازلہ  جس غرض  سے پڑھی جا  رہی ہو اگر وہ پوری ہوگئی ہوں یا اس کے اثرات ظاہر ہو رہے  ہوں  تو اس سلسلے کو روک دیا جائے  ، تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں ، اور اگر وہ غرض پوری نہیں ہوئی تو بھی ایک ماہ کے بعد موقوف کرکے  کچھ عرصےکے بعد دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے تاکہ حدیث شریف کی موافقت ہو جائے اور لوگوں کی ملال واکتاہٹ بھی دور ہوجائے،نیز فلسطینیوں پر جو ظلم وستم ہو رہا ہے ان کے لیے  ہمارے ملک میں قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں ۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه: «أن رعلا وذكوان وعصية وبني لحيان، استمدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم على عدو، فأمدهم بسبعين من الأنصار، كنا نسميهم القراء في زمانهم، كانوا يحتطبون بالنهار ويصلون بالليل، حتى كانوا ببئر معونة قتلوهم وغدروا بهم، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فقنت شهرا يدعو في الصبح على أحياء من أحياء العرب، على رعل وذكوان وعصية وبني لحيان، قال أنس: فقرأنا فيهم قرآنا، ثم إن ذلك رفع: بلغوا عنا قومنا أنا لقينا ربنا فرضي عنا وأرضانا». وعن قتادة، عن أنس بن مالك حدثه: أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قنت شهرا في صلاة الصبح يدعو على أحياء من أحياء العرب، على رعل وذكوان وعصية وبني لحيان زاد خليفة: حدثنا ابن زريع: حدثنا سعيد، عن قتادة: حدثنا أنس: أن أولئك السبعين من الأنصار قتلوا ببئر معونة قرآنا: كتابا نحوه".

(کتاب المغازی، باب غروۃ الرجیع ،105/5، رقم الحدیث:4090،ط: السلطانیۃ بالمطبعۃ الکبری الأمیریة)

سنن ابی داؤد شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة العتمة شهرا يقول في قنوته: "اللهم نج الوليد بن الوليد، اللهم نج سلمة بن هشام، اللهم نج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف ،قال أبو هريرة: وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فلم يدع لهم، فذكرت ذلك له، فقال: "وما تراهم قد قدموا".

(کتاب الصلوۃ، باب القنوت، 576/2، رقم الحدیث:1442، ط:دار الرسالة العامیة)

 بذل المجھود فی حل سنن ابی داؤد میں ہے :

"(قال أبو هريرة: وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم) أي صلَّى صلاة الصبح يومًا، ولفظ ذات زائدة (فلم يدع لهم، فذكرت ذلك) أي سألت سبب ترك دعائه (له) أي لرسول الله صلى الله عليه وسلم (فقال) رسول الله صلى الله عليه وسلم (وما تراهم قد قدموا؟ ) أي كان ذلك الدعاء لهم لأجل تخلصهم من أيدي الكفرة، وقد نجوا منهم، وجاؤوا إلى المدينة، فما بقي حاجة إلى الدعاء لهم بذلك".

(کتاب الصلوۃ، باب القنوت في الصلوات ، 148/6،ط: مرکز الشیخ ابی الحسن النووی)

اعلاء السنن میں ہے :

"قلت وفيه غايةالقنوت لنازلة ان يقنت اياما معلومة عن النبي ، اهي قدر شهر ، كما في الروايات عن انس :" انه قنت شهر ا ثم ترك " فاحفظه فهذا اتباع السنة النبوية".

(كتاب الصلوة، باب أحكام القنوت النازله، 118/6، ط: ادارة القرآن كراچي )

فتاوي محمودیہ ميں ہے:

"استمر ار نازلہ كي حالت ميں ايك ماه سے زائد مدت تك مسلسل قنوت نازلہ پڑھتے رہنا خلاف شرع نہیں ہے "

(کتاب  الصلوۃ،باب الوتر والقنوت ،الفصل الثانی  فی القنوت النازلہ ،171/7 ،ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

صحيح ابن حبان ميں ہے:

"عن نعمان بن بشير:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "المؤمنون تراحمهم ولطف بعضهم ببعض كجسد رجل واحد إذا اشتكى بعض جسده ألم له سائر جسده"

(كتاب صحيح ابن حبان ،500/4، رقم الحدیث:3845،ط:دار ابن حزم بیروت)

فقط اللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144508102132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں