بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قنوت نازلہ میں ہاتھ لٹکائے جائیں یا باندھےجائیں؟


سوال

 قنوتِ نازلہ میں (قومہ میں) ہاتھ باندھ کر رکھنا چاہیے یا کھلے ہوئے؟ اس بارے میں راجح قول کون سا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھ باندھاجائے یا لٹکایا جائے دونوں صورتیں درست ہیں البتہ قنوت نازلہ کے دوران ہاتھ باندھنا زیادہ بہتر ہے کیوں کہ ہر وہ قیام جس میں مسنون ذکر ہے اس میں امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک ہاتھ باندھنا سنت ہے  جیسا کہ ثناء ،دعائے قنوت اور جنازہ کی نماز کے دوران ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔ جہاں لٹکانے کا رواج ہے وہاں لٹکا کے رکھے اور جہاں باندھنے کا رواج ہے وہاں باندھ کے رکھے جھگڑا ،فساد اور اختلاف نہ کرے۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ثم وضع يمينه على يساره" وتقدم صفته "تحت سرته عقب التحريمة بلا مهلة" لأنه سنة القيام في ظاهر المذهب. وعند محمد سنة القراءة فيرسل حال الثناء ‌وعندهما ‌يعتمد في كل قيام فيه ذكر مسنون كحالة الثناء والقنوت وصلاة الجنازة ويرسل بين تكبيرات العيدين إذ ليس فيه ذكر مسنون."

(کتاب الصلوۃ ، فصل فی کیفیة ترتیب أفعال الصلوۃ ص: 280 ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

واختلفوا أنه يرسل يديه في القنوت أم يعتمد والمختار أنه يعتمد. هكذا في فتاوى قاضي خان

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثامن فی صلوۃ الوتر جلد 1 ص: 111 ط: دارالفکر)

تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504101039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں