قنوتِ نازلہ میں (قومہ میں) ہاتھ باندھ کر رکھنا چاہیے یا کھلے ہوئے؟ اس بارے میں راجح قول کون سا ہے؟
واضح رہے کہ قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھ باندھاجائے یا لٹکایا جائے دونوں صورتیں درست ہیں البتہ قنوت نازلہ کے دوران ہاتھ باندھنا زیادہ بہتر ہے کیوں کہ ہر وہ قیام جس میں مسنون ذکر ہے اس میں امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک ہاتھ باندھنا سنت ہے جیسا کہ ثناء ،دعائے قنوت اور جنازہ کی نماز کے دوران ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔ جہاں لٹکانے کا رواج ہے وہاں لٹکا کے رکھے اور جہاں باندھنے کا رواج ہے وہاں باندھ کے رکھے جھگڑا ،فساد اور اختلاف نہ کرے۔
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"ثم وضع يمينه على يساره" وتقدم صفته "تحت سرته عقب التحريمة بلا مهلة" لأنه سنة القيام في ظاهر المذهب. وعند محمد سنة القراءة فيرسل حال الثناء وعندهما يعتمد في كل قيام فيه ذكر مسنون كحالة الثناء والقنوت وصلاة الجنازة ويرسل بين تكبيرات العيدين إذ ليس فيه ذكر مسنون."
(کتاب الصلوۃ ، فصل فی کیفیة ترتیب أفعال الصلوۃ ص: 280 ط: دارالکتب العلمیة)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
واختلفوا أنه يرسل يديه في القنوت أم يعتمد والمختار أنه يعتمد. هكذا في فتاوى قاضي خان
(کتاب الصلوۃ ، الباب الثامن فی صلوۃ الوتر جلد 1 ص: 111 ط: دارالفکر)
تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:
قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504101039
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن