بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قنوت نازلہ کن کن نمازوں میں پڑھنا جائز ہے؟


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فجر کے علاوہ دوسری جہری نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

نیزسوال کے ساتھ ایک فتوی منسلک ہے جس میں دیگر جہری نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھنے کو ناجائز فرمایا ہے،اس کی بھی تصدیق فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ معمول بہ اور فقہی روایات کے مطابق راجح یہ ہی ہے کہ قنوت نازلہ فجر کی نماز میں پڑھی  جائے، البتہ دیگر جہری نمازوں میں بھی  قنوت نازلہ پڑھنا درست ہےکیونکہ فقہاء احناف کے یہاں دوسرا قول تمام جہری نمازوں میں قنوت نازلہ کے جواز کا بھی ہے ،  اس قول کے تائید  احادیث  سے بھی ہوتی ہے اور اکابرین کے فتاوی (کفایت المفتی اور فتاوی دار العلوم دیوبند ) میں دوسرے قول پر عمل کی گنجائش بھی مذکور ہے ۔

تمام جہری نمازوں میں قنوت نازلہ کا جواز الدر المختار، بحر الرائق ، مراقی الفلاح،بنایہ شرح الھدایہ میں منقول ہے۔

 منسلکہ فتوی میں تین وجوہات کی بناء پر فجر کے علاوہ دیگر جہری نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھنے پر عدم جواز کا حکم لگایا ہے۔

1)کتب اصول میں فجر کے علاوہ دیگر جہری نمازوں میں قنوت نازلہ منقول نہیں ہے۔

2)فجر کے علاوہ  دیگر جہری نمازوں میں جو احادیث میں قنوت منقول ہے وہ منسوخ ہے۔

3)البحرالرائق میں مذکورہ عبارت  "إن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر "میں جہاں یہ عبارت منقول ہے  وہ محر ف ہے "صلاة الفجر" سے یعنی کاتب نے فجر کو جہر لکھ دیا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ  ان وجوہات  کی بناء پر فجر کی نماز کے علاوہ دیگر جہری نمازوں میں قنوت نازلہ کے عدم جواز پر استدلال کرنا درست نہیں  ، ذیل میں تینوں وجوہات کے جوابات یہ ہیں:

1)کتب اصول میں فجر کے علاوہ دیگر جہری نمازوں میں قنوت نازلہ منقول نہیں ہے:

واضح رہے  کہ احناف کی کتب اصول میں قنوت نازلہ کا ذکر ہی   نہیں ہے۔ اسی وجہ سے متقدمین کی کتب بھی قنوت نازلہ کے تذکرہ سے خالی ہیں (اعلاء السنن ج نمبر ۶، ص نمبر ۱۱۴،ادارہ القران و العلوم الاسلامیۃ)۔ معارف السنن میں بھی مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے حوالہ سے منقول ہے کہ فتح القدیر کی بحث سے استدلال کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ فقہاء احناف کے نزدیک قنوت نازلہ بھی منسوخ ہے۔ طحاوی رحمہ اللہ نےشرح  معانی الاثار میں صراحت سے جنگ اور امن دونوں حالات میں وتر کے علاوہ ہر نماز میں قنوت کی نفی کی ہے اور اسی کو امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف اور محمد کا قول قرار دیا ہے، البتہ علامہ طحاوی رحمہ اللہ سے ایک دوسرا قول  فجر میں قنوت نازلہ پڑھنے کا  منقول ہے۔ حضر ت بنوری رحمہ اللہ نے معارف السنن میں اس قول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ قول معانی الآثار میں منقول نہیں ہے، شاید طحاوی کی کسی اور کتاب میں مذکور ہو ۔

لہذا یہ کہنا درست  نہیں  کہ فقہ حنفی کی کتب اصول میں  جہری نمازوں کے متعلق قنوت نازلہ کا ذکر  منقول نہیں تو وہ جائز نہیں  ؛کیونکہ یہ بات تو پھر فجر کے قنوت نازلہ پر بھی صادق آتی ہے جبکہ اس کے جواز کے بارے تو اتفاق ہے۔نیز جب فجر کے قنوت نازلہ کا جواز بھی متاخرین فقہاء سے منقول ہے اور اس پر عمل جائز ہے تو پھر تمام جہری نمازوں کے قنوت کا جواز بھی بعض متاخرین فقہاء سے منقول ہے تو اس کو نا جائز کیونکر کہا جائے؟

2)فجر کے علاوہ بقیہ  جہری نمازوں کے متعلق جو روایات احادیث ہیں وہ سب منسوخ ہیں:

اس بارے میں یہ  واضح رہے کہ بیشک جن فقہاء کا یہ قول ہے کہ قنوت نازلہ صرف فجر میں جائز ہے وہ حضرات مذکورہ احادیث کی یہ ہی توجیہ کرتے ہیں کہ مذکورہ  روایات  منسوخ  ہیں لیکن یہ   تعلیل کتب فقہ میں  "كانهم" کے الفاظ  کے ساتھ منقول ہے یعنی یہ تعلیل احتمالی ہے یقینی نہیں ہے ۔ یہ تعبیر ہی دوسری جہت کے جواز کی طرف مشیر ہے۔کفایت المفتی میں بھی اس نسخ والے قول کے متعلق ایسا ہی کچھ فرمایا گیا ہے۔نیز جن فقہاء نے دوسرے قول کو لیا ہے ان کے نزدیک بلا شبہ یہ روایات منسوخ نہیں ہیں، لہذا فقہ حنفی کی رو سے ان احادیث پر عمل بھی منسوخ پر عمل نہیں کہلائے گا۔

3)                     البحر الرائق میں شرح النقایہ سے غایہ کے واسطہ سے یہ الفاظ منقول ہیں  "إن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر " ۔  علامہ شامی رحمہ اللہ نے بحر الرائق میں موجود عبارت کو تحریف پر حمل کیا ہے اور یہ دلیل بیان کی ہے کہ اشباہ، ملا مسکین اور شرح شیخ اسماعیل نے  شرح النقایہ کی عبارت کو یوں نقل کیا ہے"عن الغاية: في صلاة الفجر"  ۔ شامی نے  اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ غایہ سے مراد غایۃ السروجی ہے کیونکہ غایۃ البیان میں یہ عبارت موجود نہیں ہے۔

اس بارے یہ بات جاننا چاہیے کہ :

الف) غایۃ السروجی کا جو مخطوطہ ملا اس میں متعلقہ مقام پر "في صلاة الجهر" کے الفا ظ ہیں نہ  کہ "في صلاة الفجر" کے اور صاحب کتاب نے اس کے بعد لکھا ہے "وبه قال النووي"، صاحب کتاب کی یہ تعبیر بالکلیہ محرف ہونے کے احتمال کو ختم کردیتی ہے کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ  امام نووی صرف فجر میں قنوت نازلہ کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ تمام نمازوں میں قنوت نازلہ کےقائل ہیں ،لہذا فجر والا قول ان کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ہاں تمام جہری نمازوں  والا قول ان کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے   ،لہذا جب موجودہ مخطوطہ میں بھی " في صلاة الجهر" کے الفاظ ہیں اور صاحب بحر الرائق نے شرح النقایہ سے بھی یہ ہی الفاظ نقل کیے ہیں تو اس کو جزم کے ساتھ محرف نہیں کہا جاسکتا۔

ب) شامی رحمہ اللہ نے شرح شیخ اسماعیل سے  بنایہ کی عبارت یوں نقل کی ہے"في صلاة الجهرية" ، اس تعبیر میں "صلاة الفجر" سے محرف ہونے کا احتمال بھی نہیں ہے۔ یہ توجیہ کفایت المفتی میں بھی مذکور ہے۔اور شامی رحمہ اللہ نے بحر کے حاشیہ میں جہاں تحریف کی بات کی ہے وہاں اخیر میں لکھا ہے کہ شرح شیخ اسماعیل میں نقایہ کے واسطہ سے الفاظ "في صلاة الفجر " کے منقول ہیں لیکن ساتھ میں بنایہ سے انہوں نے " في صلاة الجهرية"  کے  الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔یعنی نقایہ کی عبارت میں اگر تحریف کا امکان بھی تب بھی بنایہ کی عبارت واضح ہے۔

ج)  شامی نے بحر کے حاشیہ میں تحریف اور نسخ کے امکان پر بحث کرنے کے بعد اخیر میں لکھا ہے کہ شاید فقہ حنفی میں قنوت نازلہ کے بارے میں دو قول ہیں : ایک صرف فجر میں جواز کا اور دوسرا تمام جہری نمازوں میں جواز کا  ہے، لہذا شامی رحمہ اللہ نے بھی آخر میں جزم کے ساتھ دوسرے قول کو مسترد نہیں کیا اور یہ فیصلہ نہیں کیا کہ دوسرے قول کا مکمل مدار محرف عبارت پر ہے۔

لہذا جب احادیث سے فجر کے علاوہ دیگر جہری نمازوں میں قنوت کا ذکر موجود ہے اوران احایث کی روشنی میں بعض  فقہاء احناف میں بھی جہری نمازوں میں قنوت نازلہ کا جواز لکھا ہے  اور ہمارے اکابرین کے فتاوی میں سے کفایت المفتی اور فتاوی دار العلوم دیوبند میں اس دوسرے قول پر عمل کی گنجائش بھی مذکور ہے تو پھر فجر کے علاوہ باقی جہری نمازوں میں قنوت نازلہ کو ناجائزکہنا درست نہیں البتہ  فقہاء احناف کے یہاں معمول بہ فجر ہی ہے تو اسی میں پڑھنا بہتر ہے، لیکن اگر  کوئی شخص  دوسری جہری نمازوں  میں بھی  پڑھتا ہے تو اس کو ناجائز کہنا درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يقنت لغيره) إلا النازلة فيقنت الإمام في الجهرية، وقيل في الكل

مطلب في القنوت للنازلة

(قوله إلا لنازلة) قال في الصحاح: النازلة الشديدة من شدائد الدهر، ولا شك أن الطاعون من أشد النوازل أشباه.

(قوله فيقنت الإمام في الجهرية) يوافقه ما في البحر والشرنبلالية عن شرح النقابة عن الغاية: وإن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر. وهو قول الثوري وأحمد اهـ وكذا ما في شرح الشيخ إسماعيل عن البنانية: إذا وقعت نازلة قنت الإمام في الصلاة الجهرية، لكن في الأشباه عن الغاية: قنت في صلاة الفجر، ويؤيده ما في شرح المنية حيث قال بعد كلام: فتكون شرعيته: أي شرعية القنوت في النوازل مستمرة، وهو محمل قنوت من قنت من الصحابة بعد وفاته عليه الصلاة والسلام، وهو مذهبنا وعليه.الجمهور. وقال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلية، فإن وقعت فتنة أو بلية فلا بأس به، فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم وأما القنوت في الصلوات كلها للنوازل فلم يقل به إلا الشافعي، وكأنهم حملوا ما روي عنه عليه الصلاة والسلام «أنه قنت في الظهر والعشاء» كما في مسلم، وأنه «قنت في المغرب» أيضا كما في البخاري على النسخ لعدم ورود المواظبة والتكرار الواردين في الفجر عنه عليه الصلاة والسلام اهـ وهو صريح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غيرها من الصلوات الجهرية أو السرية. ومفاده أن قولهم بأن القنوت في الفجر منسوخ معناه نسخ عموم الحكم لا نسخ أصله كما نبه عليه نوح أفندي، وظاهر تقييدهم بالإمام أنه لا يقنت المنفرد، وهل المقتدي مثله أم لا؟ وهل القنوت هنا قبل الركوع أم بعده؟ لم أره. والذي يظهر لي أن المقتدي يتابع إمامه إلا إذا جهر فيؤمن وأنه يقنت بعد الركوع لا قبله، بدليل أن ما استدل به الشافعي على قنوت الفجر وفيه التصريح بالقنوت بعد الركوع حمله علماؤنا على القنوت للنازلة، ثم رأيت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنه بعده؛ واستظهر الحموي أنه قبله والأظهر ما قلناه، والله أعلم.

(قوله وقيل في الكل) قد علمت أن هذا لم يقل به إلا الشافعي، وعزاه في البحر إلى جمهور أهل الحديث، فكان ينبغي عزوه إليهم لئلا يوهم أنه قول في المذهب."

(کتاب الصلاۃ، با ب الوتر و النوافل، ج نمبر ۲، ص نمبر ۱۱، ایچ ایم سعید)

مراقی الفلاح میں ہے:

"وفي الغابة: إن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر وهو قول الثوري وأحمد وقال جمهور أهل الحديث القنوت عند النوازل مشروع في الصلوات كلها اهـ

فعدم قنوت النبي صلى الله عليه وسلم في الفجر بعد ظفره بأولئك لعدم حصول نازلة تستدعي القنوت بعدها فتكون مشروعيته مستمرة وهو محمل قنوت من قنت من الصحابة رضي الله عنهم بعد وفاته صلى الله عليه وسلم وهو مذهبنا وعليه الجمهور وقال الإمام أبو جعفر الطحاوي رحمه الله تعالى إنما لا يقنت عندنا في الفجر من غير بلية فإن وقعت فتنة أو بلية فلا بأس به فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم أي بعد الركوع كما تقدم."

(کتاب الصلاۃ، با ب الوتر، ص نمبر ۱۴۰،المکتبۃ العصریۃ)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"قال (ولا قنوت في شيء من الصلوات سوى الوتر عندنا) وقال الشافعي - رحمه الله تعالى - يقنت في صلاة الفجر في الركعة الثانية بعد الركوع واستدل بحديث أنس - رضي الله تعالى عنه - «كان النبي صلى الله عليه وسلم يقنت في صلاة الفجر إلى أن فارق الدنيا»

وقد صح قنوته فيها فمن قال إنه انتسخ فعليه إثباته بالدليل، وقد صح أن عليا - رضي الله تعالى عنه - في حروبه كان يقنت على من ناواه في صلاة الفجر.

(ولنا) حديث ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم قنت في صلاة الفجر شهرا يدعو على حي من أحياء العرب ثم تركه»، وهكذا عن أنس - رضي الله تعالى عنه - قال «قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر شهرا أو قال أربعين يوما يدعو على رعل وذكوان ويقول في قنوته اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف فلما نزل قوله تعالى {ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم} [آل عمران: 128] الآية ترك ذلك» وقال أبو عثمان النهدي - رضي الله تعالى عنه - صليت خلف أبي بكر سنين وخلف عمر كذلك فلم أر واحدا منهما يقنت في صلاة الفجر. ورووا القنوت ورووا تركه، كذلك ففعله المتأخر ينسخ فعله المتقدم وقد صح أنه كان يقنت في صلاة المغرب كما يقنت في صلاة الفجر ثم انتسخ أحدهما بالاتفاق فكذلك الآخر."

(کتاب الصلاۃ، احکام الوتر، ج نمبر ۱، ص نمبر  ۱۶۵، دار المعرفۃ)

فتح المعین لملا مسکین میں ہے:

"(قوله و لا يقنت لغيره ) وما روي من قنوته عليه السلام في الفجر فانما كان شهرا يدعو علي قوم من العرب ثم تركه  ولامشروع لا يترك نهر و قال الطحاوي انما يقنت عندنا في صلاة الفجر في غير بلية اما اذا وقعت بلية فلا بأس به و ظاهر فانه لو قنت في الفجر لبلية انه يقنت قبل الركوع حموي وفي شرح النقاية عن الغاية و ان نزل بالمسلمين نازلة قنت الامام في صلاة الفجر و ظاهر قوله في الفجر و هو قول النووي في الصلاة كلها يقتضي ان القنوت في كل الصلوات اذا نزل بالمسلمين نازلة  ليس مذهبا لنا ثم رأيت  التصريح بذلك في حاشية النوح." 

(کتاب الصلاۃ،ج نمبر ۱، ص نمبر ۲۵۲)

حاشیۃالنوح  علی الدرر و الغرر میں ہے:

 "قال في الملتقط قال الطحاوي انما لا  يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلي فان وقعت فتنة او بلية فلا بأس به و قال بعض الفضلاء هو مذهبنا و عليه الجمهور انتهي  وقال الشافعي يقنت عند النوازل في الصلوات كلها لما روي عنه صلي الله عليه و سلم ان يقنت في الظهر و العشاء علي ما في مسلم وانه قنت  في المغرب ايضا علي ما في البخاري و كان ائمتنا حملوا ما روي من قنوته صلي الله عليه وسلم في غير الفجر علي النسخ لعدم ورود المواظبة و التكرار الواردين في الفجر عنه صلي الله عليه وسلم ."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر و النوافل، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۵۲، مخطوطہ،noruosmaniye 1108/1,1461)

نہر الفائق میں ہے:

"فرع لو وقعت نازلة قنت الإمام في الصلاة الجهرية كذا في (البناية)، ونقل في العناية) عن جمهور أهل الحديث أنه يقنت في كل الصلوات."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، ج نمبر ۱، ص نمبر ۲۹۲، دار الکتب العلمیۃ) 

فتح باب العنایۃ بشرح الوقایۃ میں ہے:

"وروى محمد في «الآثار»: عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، عن الأسود بن يزيد: «أنه صحب عمر بن الخطاب سنتين في السفر والحضر، فلم يره قانتا في الفجر حتى فارقه». قال إبراهيم: وأهل الكوفة إنما أخذوا القنوت عن علي رضي الله عنه قنت يدعو على معاوية (حين حاربه) .

وأهل الشام أخذوا القنوت عن معاوية يدعو على علي (حين حاربه). وفي «الغاية»: وإن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر. وهو قول الثوري وأحمد، لما في مسلم، وأبي داود، والترمذي، وأحمد، والنسائي من ضم المغرب إلى الصبح في القنوت. وقال جمهور أهل الحديث: القنوت عند النوازل مشروع في الصلاة كلها."

(کتاب الصلاۃ، فصل فی الوتر و النوافل، ج نمبر۱، ص نمبر ۳۲۴، دار الارقم )

حاشیۃ ابن عبادین علی البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح النقاية معزيا إلى الغاية وإن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر وهو قول الثوري وأحمد وقال جمهور أهل الحديث القنوت عند النوازل مشروع في الصلوات كلها اهـ»

«قال الحافظ أبو جعفر الطحاوي إنما لا يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلية فإذا وقعت فتنة أو بلية فلا بأس به فعله رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - وأما القنوت في الصلوات كلها عند النوازل فلم يقل به إلا الشافعي وكأنهم حملوا ما روي عنه عليه السلام أنه قنت في الظهر والعشاء على ما في مسلم وأنه قنت في المغرب أيضا على ما في البخاري على النسخ لعدم ورود المواظبة والتكرار الواردين في الفجر عنه

ومقتضى هذا أن القنوت لنازلة خاص بالفجر ويخالفه ما ذكره المؤلف معزيا إلى الغاية من قوله في صلاة الجهر ولعله محرف عن الفجر وقد وجدته بهذا اللفظ في حواشي مسكين وكذا في الأشباه وكذا في شرح الشيخ إسماعيل لكنه عزاه إلى غاية البيان ولم أجد المسألة فيها فلعله اشتبه عليه غاية السروجي بغاية البيان لكن نقل عن البناية ما نصه»

إذا وقعت نازلة قنت الإمام في الصلاة الجهرية وقال الطحاوي لا يقنت عندنا في صلاة الفجر في غير بلية أما إذا وقعت فلا بأس به اهـ.ولعل في المسألة قولين فليراجع."

(البحر الرائق ،کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، ج نمبر ۲، ص نمبر۴۸، دار الکتاب الاسلامی)

بنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"فروع: إن نزل بالمسلمين نازلة قنت الإمام في صلاة الجهر، وبه قال الأكثرون وأحمد.

وقال الطحاوي: إنما لا يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلية، فإن وقعت فتنة أو بلية فلا بأس به، فعله رسول الله عليه السلام ذكره عنه السيد الشريف صاحب " النافع " في مجموعه."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر، ج نمبر ۲، ص نمبر ۵۰۱،دار اکتب العلمیۃ)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"سئلت عنه في طاعون سنة تسع وستين وتسع مائة بالقاهرة فأجبت بأني لم أره صريحا، ولكن صرح في الغاية وعزاه الشمني إليها بأنه إذا نزل بالمسلمين نازلة.قنت الإمام في صلاة الفجر، وهو قول الثوري وأحمد، وقال جمهور أهل الحديث: القنوت عند النوازل مشروع في الصلاة كلها (انتهى) .وفي فتح القدير أن مشروعية القنوت للنازلة مستمر لم ينسخ، وبه قال جماعة من أهل الحديث وحملوا عليه حديث أبي جعفر عن أنس رضي الله عنهما ( {ما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقنت حتى فارق الدنيا} ) أي عند النوازل، وما ذكرنا من أخبار الخلفاء يفيد تقرره لفعلهم ذلك بعده صلى الله عليه وآله وسلم، وقد قنت الصديق رضي الله عنه في محاربة الصحابة رضي الله عنهم مسيلمة الكذاب وعند محاربة أهل الكتاب، وكذلك قنت عمر رضي الله عنه، وكذلك قنت علي رضي الله عنه في محاربة معاوية، وقنت معاوية في محاربته (انتهى) .فالقنوت عندنا في النازلة ثابت. وهو الدعاء برفعها.ولا شك أن الطاعون من أشد النوازل، قال في المصباح: النازلة المصيبة الشديدة تنزل بالناس (انتهى) .وفي القاموس: النازلة الشديدة (انتهى) .وفي الصحاح: النازلة الشديدة من شدائد الدهر تنزل بالناس (انتهى) .وذكر في السراج الوهاج قال الطحطاوي: ولا يقنت في الفجر."

(الفن الثالث، الفروق، فائدۃ فی الدعاء برفع الطاعون، ص نمبر  ۳۳۱،  دار الکتب العلمیہ)

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

"ولا يقنت في صلاة غيرها) إلا لنازلة في الجهرية، وقيل: في الكل."

(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج نمبر ۱، ص نمبر ، المکتبۃ العلمیۃ)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"(باب استحباب القنوت في جميع الصلاة)

"إذا نزلت بالمسلمين نازلة والعياذ بالله واستحبابه في الصبح دائما وبيان أن محله بعد رفع الرأس من الركوع في الركعة الأخيرة واستحباب الجهر به مذهب الشافعي رحمه الله أن القنوت مسنون في صلاة الصبح دائما وأما غيرها فله فيه ثلاثة أقوال الصحيح المشهور أنه إن نزلت نازلة كعدو وقحط ووباء وعطش وضرر ظاهر في المسلمين ونحو ذلك قنتوا في جميع الصلوات المكتوبة وإلا فلا والثاني يقنتون في الحالين والثالث لا يقنتون في الحالين."

(کتاب الصلاۃ، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاۃ، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۷۶، دار احیاء التراث العربی)

غایۃ السروج شرح الھدایۃ میں ہے:

"فرع ان نزل بالمسلمين نازلة قنت الامام في صلاة الجهر وبه قال النووي و احمد وقال الحافظ ابو جعفر الطحاوي انما لا يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلية فان وقعت فتنة او بلية لا بأس به فعله رسول الله صلي الله عليه وسلم  ذكره عبد السيد الشريف صاحب النفع في مجموعه."

(کتاب الصلاۃ، باب الوتر،ج نمبر ۲، ص نمبر ۲۲۷،مخطوطہ)

اعلاءالسنن میں ہے:

"اما العشر  : فالظاهر من كلام الطحاوي في معني الاثار له ان ابا حنيفة و صاحباه لا يقولون بالقونت فيما سوي الوتر مطلقا ، لا في حال اإحرب و لا في غيرها و نصه : قال ابو جعفر : فهذا عبد الله بن مسعود  لم يكن يقنت في دهره كله و قد كان المسلمون في قتال عدوهم في كل ولاية عمر او كثرها فلم يكن تقنت كذلك .....  ويشهد لما حكاه عنهم سكوت اصحاب المتون عن قنوت النازلة قاطبة و كذا اصحاب الشروح من المتقدمين كصاحب الهداية و البدائع و غيرهما و لم يذكره  قاضي خان في فتاواه ايضا الخ."

(کتاب الصلاۃ،ابواب الوتر، ج نمبر۶، ص نمبر ۱۱۳،ادارۃ القران والعلوم الاسلامیۃ)

معارف السنن میں ہے:

"قال الشيخ و ما يفهم من كلام ابن الهمام في الفتح ان قنوت النازلة نسخ فلا يؤخذ به حيث حكي البدر العيني في البناية  جوازه عن الامام ابي حنيفة نقلا عن الطحاوي."

(کتاب الصلاۃ ، باب ما جاء  فی القنوت فی الفجر، ج نمبر ۴، ص نمبر ۲۱، ایچ ایم سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"ان روایات سے ثابت ہے کہ قنوت نازلہ ائمہ حنفیہ اور جمہور کے نزدیک جائز ہے اس کا جواز اور مشروعیت مستمر ہے، مسنوخ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہی یہ بات کہ حنفیہ کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں ہے یا تین جہری نمازوں میں یا پانچوں نمازوں میں؟ تو اس کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ علامہ طحاوی رحمہ اللہ کی عبارت میں صرف فجر کی نماز میں قنوت پڑھنے کا ذکر ہے اور اس کو صاحب شامی رحمہ اللہ نے ترجیح دی ہے لیکن علامہ  عینی رحمہ اللہ نے شرح ہدایہ میں صلاۃ الجہر لکھا ہے اور اسی طرح بحر الرائق و مراقی الفلاح میں شرح نقایۃ سے صلاۃ الجہر نقل کیا ہے اور در مختار میں قیل فی الصلوات کلھا بھی لکھا ہےیعنی کہا گیا ہے کہ تمام نمازوں میں پڑھنی جائز ہے اور احادیث میں بھی قنوت کا ذکر مختلف طریقوں سے آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔پس صرف فجر میں پڑھنے کی روایت اور جہری نمازوں میں پڑھنے کی روایت تو فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں بھی موجود ہے  ام دونوں صورتوں میں تو فقہ حنفی کی رو سے کوئی تأمل کی گنجائش نہیں   الخ کتبہ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ مدرس مدرسہ امینیہ دہلی"

(کتاب الصلاۃ،باب قونت نازلہ ج نمبر ۳، ص نمبر  ۴۴۵، دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"صاحب بحر نے شرح نقایہ سے اور مراقی الفلاح میں غایۃ سے صلاۃ الجہر نقل کیا ہے اور علامہ شامی نے حواشی بحر میں شرح شیخ اسماعیل کے حوالے سے بنایۃ شرح ہدایہ للعینی سے نقل کیا ہے اذا وقعت نازلة قنت الامام في صلاة الجهرية  وقال الطحاوي۔۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ بنایہ کی عبارت میں لفظ في صلاة الجهرية  میں صلاة الفجر سے تحریف ہونے کا احتمال نہایت بعید ہے اسی لیے علامہ شامی نے اس کے بعد فرمایا ولعل في المسئلة قولين فليراجع ۔۔۔ پس میرا خیال اب تک یہی ہے کہ حنفیہ کے یہاں صلاۃ الجہر کی روایت بھی ہے اور صلاۃ الفجر کی بھی اور صلاۃ الجہر کی روایت چونکہ موجہ بالاحادیث ہے اسی لیے اس پر عمل کرنے میں حنفیت کی رو سے بھی مضائقہ نہیں رہا یہ کہ سری نمازوں کے لیے بھی قنوت کی روایتیں حدیث کی موجود ہیں تو میں حنفیت کے لحاظ سے ان پر عمل کی رائے نہیں رکھنا۔۔۔۔۔۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"

(کتاب الصلاۃ، باب قنوت نازلہ، ج نمبر ۳، ص نمبر  ۴۴۹، دار الاشاعت)

دار العلوم دیوبند:

"قنوت نازلہ بعد الرکوع ہے اور حنفیہ نے صرف نماز صبح میں اس کو اختیار کیا ہے اگرچہ بعض فقہاء نے جملہ صلاۃ جہریہ میں بھی جائز لکھا ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب ثامن، فصل ثانی ،ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۵۲، دار الاشاعت) 

دار العلوم دیوبند میں ہے:

"بعض روایات کے موافق جن میں تمام جہری نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھنے کو جائز لکھا ہے جمعہ کی نماز میں بھی درست ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب ثامن، فصل ثانی ،ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۵۲، دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں