بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کبیرہ سے توبہ کرنے والے کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

 ایک شخص گناہ کبیرہ یعنی زنا کرتا تھا،  لیکن اس کے بعد انہوں نےاللہ  تعالی سے  معافی مانگی ، لیکن پھر دوسری دفعہ اس گناہ کے کچھ کام میں مبتلا ہوا یعنی پورا زنا نہیں کیا ، بس موبائل میں لڑکیو ں کے ساتھ ایسے کرتا رہا ، لیکن کبھی زنا نہیں کیا اور نہ ہی فارغ ہوا اور اس بار وہ پکی توبہ کر چکا،  اور وعدہ بھی کیا کہ  آئندہ ایسے کچھ بھی نہیں کرے گا ، اب وہ امامت کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز  ہے ؟‎

جواب

واضح رہے کہ زنا بہت بڑا گناہ ہے، قرآن و حدیث میں زنا کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور زنا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔

حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم    کا ارشادِ گرامی ہے:

"عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنه : إن السماوات السبع و الأرضين السبع و الجبال ليلعن الشيخ الزاني و إن فروج الزناه لتؤذي أهل النار بنتن ريحها."

(مسند البزار، ج:10، ص:310، ط: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

"ترجمہ:ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔"(مسند بزار)

ایک دوسری حدیث میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: لا يزني الزاني حين يزني و هو مؤمن، و لا يشرب الخمر حين يشرب و هو مؤمن، و لا يسرق حين يسرق و هو مؤمن، و لا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها و هو مؤمن."

(صحيح البخاري، ج:3، ص:136، ط: دار طوق النجاة)

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا۔"(صحیح بخاری)

 انسان  سے  گناہ ہوجاتے ہیں، لیکن بہترین    انسان وہ ہے  جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے، اس لیےتوبہ کرنے کے بعد  بندہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے جیسا   حدیث شریف میں ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے  والا ایسا ہے جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہیں،  لہذا صورتِ مسئولہ   اگر مذکورہ شخص  نے صدق دل سے توبہ کی ہو  اور آئندہ نہ کرنے کا پکا عزم ہو،    اکثر نمازی اس کی امامت سے راضی ہوں  تو   ان  کی  امامت  بلا کراہت درست ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن  اگر بار بار توبہ کرکے ، توبہ توڑ دیتا ہے اور گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر اس کا امام بننا مکروہ ہے ۔

قرآن کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: "یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔"(بیان القرآن)

حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم    کا ارشادِ گرامی ہے:

"عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : التائب ‌من ‌الذنب، كمن لا ذنب له."

(سنن ابن ماجه، باب ذكر التوبة، ج:5، ص:320، رقم الحديث:4250، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔" (سنن ابن ماجہ)

دوسری حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس  قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "‌كل ‌بني ‌آدم خطاء، وخير الخطائين التوابون."

(سنن ابن ماجه، باب ذكر التوبة، ج:5، ص:320، رقم الحديث:4251، ط:دار الرسالة العالمية)

"ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔"(سنن ابن ماجہ)

المحيط البرهاني میں ہے:

"يجوز الاقتداء لمن كان معروفاً بأكل الربا، ولكن يكره روي عن أبي حنيفة نصاً وعن أبي يوسف لا ينبغي للقوم أن يؤمهم صاحب خصومة في الدين...وإن صلى رجل خلفه جاز قال الفقيه أبو جعفر الوزان: يكون مراد أبي يوسف الدين يناظر في دقائق الكلام، ومن صلى خلف فاسق أو مبتدع يكون محرزاً ثواب الجماعة، قال عليه السلام: صلوا خلف كل بر وفاجر."

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة، الفصل السادس عشر في التغني والألحان، ج:1، ص:407، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق   میں ہے:

"وذكر الشارح وغيره أن الفاسق إذا تعذر منعه يصلي الجمعة خلفه، وفي غيرها ينتقل إلى مسجد آخر وعلل له في المعراج بأن في غير الجمعة يجد إماما غيره فقال في فتح القدير وعلى هذا فيكره الاقتداء به في الجمعة إذا تعددت إقامتها في المصر على قول محمد وهو المفتى به."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:370،  ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره) تنزيها (إمامة عبد).. (وفاسق وأعمى) ونحوه الأعشى نهر (إلا أن يكون) أي غير الفاسق (أعلم القوم) فهو أولى (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول...(فلا يصح الاقتداء به أصلا) فليحفظ (وولد الزنا) هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة بحر بحثا...وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم"

(كتاب الصلوة،  ‌‌باب الإمامة، ج:1، ص:560، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"تكره خلف أمرد وسفيه ومفلوج، وأبرص شاع برصه، وشارب الخمر وآكل الربا ونمام، ومراء ومتصنع لكن في وتر البحر إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح...(قوله نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث  من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي  قال في الحلية: ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعا إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم."

(كتاب الصلوة،  ‌‌باب الإمامة، ج:1، ص:562، ط:سعيد)

حاشية الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"كره إمامة الفاسق،.... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة."

(كتاب الصلوة، باب الإمامة، فصل: في بيان الأحق بالإمامة، ص:303، ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"وہ(زانی) اگر تائب ہوجائے اور پہلے افعال شنیعہ سے توبہ کرے اور اکثر نمازی اس کی امامت سے راضی ہوں   تو اس کو امام بنانا درست ہے، اور اس کی امامت میں کچھ کراہت نہیں ہے۔"

(کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، ج:3، ص:136، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں