بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کے ٹو مہم جوئی پرجانے یا قلّی بن کر جانے کا حکم


سوال

بہت دنوں سے ہمارے ایک شہری   کی موت کو  لے کر بحث کی جارہی ہے جو کہ "کے ٹو "  کی ایک مہم جوئی کے درمیان وفات پاچکے ہیں،  ہمارے شمال کے لوگوں کا ذریعہ معاش بھی یہی ہے کہ وہ باہر سے  آنے والی ٹیموں کے ساتھ بطورِ  معاوضہ پورٹر یعنی قلی کے طور پر جاتے ہیں،  مذکورہ شہری بھی بحثیت پورٹر اس ٹیم کا حصہ تھے جو موت سے  ہم کنار  ہوئی، بہت سے لوگ ان کی موت کو خودکشی قرار دے رہے ہیں،  اور  ساتھ میں قرآنی آیت کا حوالہ بھی کہ جان بوجھ کر خود کو ہلاکت میں مت ڈالو ، اور بہت بڑی تعداد ان کو قومی ہیرو قرار دے رہی ہے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملہ میں شرعی حکم کیا ہے ؟  واضح طور پر شرعاً راہنمائی  ہوجائے ، کیا کوہ پیمائی کے لیے جانا جس میں جان جانے کا خطرہ ہو جائز ہے یا ناجائز؟  اور کیا رزق کمانے کی خاطر بحثیت پورٹر کوہ پیماؤں کے ساتھ جایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ جب کہ ان علاقوں میں ذرائع روزگار بھی محدود ہوں۔

جواب

بصورتِ مسئولہ فی نفسہ پورٹر (قلّی) بن کر اجرت وصول کرنا جائز ہے، تاہم ازرُوئے شرع کسی بھی انسان کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے، لہذامذکورہ مہم جوئی پر جانا یا ایسی جگہ قلی بن کر جانا جہاں جانی نقصان کا یقین ہو، اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے،  وہاں جانے سے اجتناب کرنا لازمی ہے، اپنے لئے خطرات سے خالی روزگار کی تلاش کرنی چاہیے، ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ معاون ومدد گار بھی ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إنْ اسْتَأْجَرَهُ لِيَحْمِلَهُ إلَى مَوْضِعِ كَذَا فَحَمَلَهُ بَعْضَ الطَّرِيقِ ثُمَّ طَالَبَهُ بِالْأَجْرِ بِمِقْدَارِ مَا حَمَلَ فَلَهُ ذَلِكَ وَكَانَ عَلَيْهِ أَنْ يُعْطِيَهُ مِنْ الْأَجْرِ حِصَّتَهُ وَلَكِنَّهُ يُجْبَرُ عَلَى أَنْ يَحْمِلَ إلَى الْمَكَانِ الَّذِي شُرِطَ فَإِذَا حَمَلَ يَسْتَوْفِي جَمِيعَ الْأُجْرَةِ، وَلَوْ اسْتَأْجَرَ لِيَحْمِلَ لَهُ مَحْمُولًا مِنْ مَكَانٍ إلَى مَكَانٍ فَحَمَلَ بَعْضَهُ وَطَلَبَ حِصَّتَهُ مِنْ الْأَجْرِ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ لَهُ أَنْ يُطَالِبَهُ بِالْأُجْرَةِ بِمِقْدَارِ مَا حَمَلَ وَيُجْبَرُ عَلَى حَمْلِ الْبَاقِي وَيُعْطِي الْبَاقِيَ مِنْ الْأُجْرَةِ، هَكَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ."

( كتاب الاجارة، الباب الثانى متى تجب الاجرة، ج:4، ص:413،  ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144207201018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں