بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قدوری کی کتاب الدعوی میں ’’لا یستحلف فی النکاح ۔۔۔الخ‘‘ عبارت کی تشریح


سوال

۱۔ قدوری کی  کتاب الدعویٰ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (نکاح، رجوع، فئی فی الایلاء، رق،استدلال، نسب، ولاء) مسائل میں نکول کو بذل پر محمول کرنے کی وجہ اور اصول کیا ہے؟ 

۲۔ نیز بذل پر حمل انہیں مسائل کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ کیا ہے؟

۳۔ نیز اس بذل پر حمل کے بعد فیصلہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح ہو کہ جب عام مقدمات میں مدعی  قاضی کے سامنے بینہ پیش نہیں کر پاتا  تو مدعی علیہ سے مدعی کے دعوی کے منکر ہونے کی وجہ سے قسم لی جاتی ہے، اور اگر مدعی علیہ قسم کھانے سے انکار کر دے تو اسے ’نکول‘ کہا جاتا ہے۔ صاحبین کے نزدیگ یہ نکول مدعی کے دعوی کے اقرار کے معنی میں ہے لہذا نکول کی وجہ سے قاضی مدعی کے دعوی کے مطابق فیصلہ دے دیتا ہے، جب کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیگ یہ نکول بذل کے معنی میں ہے، بذل کا مطلب یہ ہے کہ مدعی علیہ مدعی کے دعوی کا انکار کرنے کے باوجود خود کو جھگڑے سے بچاتا ہوامدعی کے دعوی کے مطابق مدعابہ (حق) دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی ، بذل کی وجہ سے،  قاضی  مدعی کے دعوی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

امام صاحب کے مسلک کے مطابق قسم کھانے اور نکول (بمعنی بذل)، دونوں کا مقصد خصومت (جھگڑے) کو ختم کرنا ہے اور جھگڑا ختم کرنے میں مدعی علیہ کے نکول کو اقرار قرار دینے سے اس کو جھوٹا قرار دینا لازم آتا ہے اس لیے کہ  مدعی علیہ پہلے مدعی کے دعوی کا انکار کر چکا ہوتا ہے، اب اگر نکول کو اقرار قرار دیا جائے تو اس کی وجہ سے وہ  اپنے ہی انکار کو جھٹلانے والا ہوکر جھوٹا ہوجائے گا لہذا نکول کو اقرار قرار دینے کی بجائے بذل قرار دیا جائے گا تاکہ اس کے دونوں قول، یعنی اس کا دعوی کا انکار اور قسم سے نکول، دونوں الگ الگ مقصد و معنی پر محمول ہوجائے اور یہ جھوٹا قرار نہ پائے، بلکہ نکول کی وجہ سے جھگڑے سے بچنے والا قرار پائے۔

عام مقدمات میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے نزدیک نکول کی وجہ سے قاضی مدعی کے حق میں فیصلہ دے گا تاہم جن مقدمات میں مدعی علیہ کی طرف سے نکول کے نتیجے میں اقرار یا بذل سے مدعی کا دعوی شرعی طور پر مفید نہ ہو، ان میں تینوں ائمہ کرام کے نزدیک  مدعی کے دعوی کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جائے گا اور وہ حدود، قصاص اور لعان کے مقدمات ہیں، صاحبین کے نزدیک چونکہ نکول ایسا اقرار ہے جس میں شبہ ہے، لہذا شبہ کی وجہ سے مدعی کے دعوی پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا،جب کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک مدعی علیہ کے بذل سے اس پر حد، قصاص یا لعان ثابت نہیں ہوسکتا۔

ثمرۂ اختلاف ان مقدمات میں ظاہر ہوتا ہے جن میں نکول کو اقرار کے معنی میں لینا مدعی کے دعوی کے لیے مفید ہوتا ہے، لہذا قاضی مدعی کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہے ،لیکن نکول کو بذل کے معنی میں لینے کے باوجود مدعی کا دعوی مفید نہیں ہوتا، لہذا نکول سے چوں کہ دعوی ثابت نہیں ہوتا، تو قاضی مدعی علیہ پر قسم ہی پیش نہیں کرتا اور مدعی کا دعوی ثابت نہ ہونے کی وجہ سے مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دیتا ہے۔ جن مقدمات میں یہ ثمرۂ اختلاف ظاہر ہوتا ہے،وہ یہ ہیں :

۱)نکاح ہونے یا نہ ہونے میں فریقین کا اختلاف

۲)طلاق کی عدت کے بعد عدت کے دوران رجوع میں فریقین کا اختلاف

۳)ایلاء کی مدت کے بعد مدت کے دوران رجوع میں فریقین کا اختلاف

۴) کسی مجہول النسب پرمدعی کا غلام ہونے میں فریقین کا اختلاف

۵) باندی اور آقا کا باندی کے امِ ولد میں اختلاف، جب کہ باندی مدعیہ ہو

۶) کسی مجہول النسب پر مدعی کا نسب ثابت کرنے میں فریقین کا اختلاف

۷)  کسی غیر کے  آزاد شدہ غلام ہونے یا آزاد کرنے والا آقا ہونے میں فریقین کا اختلاف

  ان کا ذکر امام قدوری نے اس عبارت میں کیا ہے جس کے متعلق سائل نے سوال کیا ہے :

"ولا يستحلف في النكاح والرجعة والفيء في الإيلاء والرق والاستيلاد والنسب والولاء والحدود وقال أبو يوسف ومحمد: يستحلف في ذلك كله إلا في الحدود والقصاص."

(مختصر القدوري ، كتاب الدعوى، ص214، دار الكتب العلمية)

ان مسائل میں بذل سے مدعی کا دعوی شرعی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا، لہذا قاضی مدعی کے دعوی کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا، مثلاً اگر ایک شخص عورت پر دعوی کرے کہ وہ اس کی بیوی ہے، اور عورت اس کا انکار کرے، پھر جب انکار کی وجہ سے عورت پر قسم پیش کی جائے تو وہ قسم کھانے سے منع کردے (یعنی نکول کردے) تو بذل کے اعتبار سے اس کا معنی ہوگا کہ عورت  نے گویا یوں کہا کہ ’میں اس شخص کے نکاح میں تو نہیں ہوں،  لیکن جھگڑا ختم کرنے کے لیے میں اس کی بیوی  بن جاتی ہوں‘ تو اس بذل سے مدعی کا دعویٔ نکاح مفید نہ ہوگا یعنی ان دونوں میں شرعی طور پر نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ 

ضروری تفصیل کے بعد سائل کے سوالات کا جواب درج ذیل ہے:

۱۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسائل میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک نکول کو بذل پر محمول نہیں کیا گیا (جیسا کہ سائل نے سمجھا ہے) ،بلکہ ان مسائل میں بذل مفید نہیں ہے، لہذا نکول مفید نہیں ہوگا اورنکول چوں کہ قسم پیش ہونے کے بعد ہوتا ہے، لہذا نکول مفید نہ ہونے کی وجہ سے مدعی علیہ سے ان مسائل میں قسم نہیں لی جائے گی، باقی نکول کو بذل پر محمول کرنے کی وجہ امام صاحب کے اصول پر یہ ہے کہ مدعی علیہ کے نکول کو اگر اقرار کے معنی میں لیا، تو وہ اپنے انکار میں جھوٹا ثابت ہوجائے گا اور اگر بذل کے معنی میں لیا تو وہ جھوٹا ثابت نہ ہوگا، لہذا ایسے معنی پر محمول کرنا زیادہ بہتر ہے جس سے اس کا جھوٹا ہونا لازم نہ آئے۔

۲۔ بذل ان مسائل کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر مسئلے میں ہے، تاہم ان مسائل میں مدعی علیہ سے قسم نہ لینا خاص ہے جس کی تفصیلی وجہ اوپر ذکر کر دی گئی۔

۳۔ امام صاحب کے مسلک کے مطابق ان مسائل میں قاضی مدعی کے دعوی کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا، تاہم اس مسئلےمیں فتوی صاحبین کے قول پر ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا تحليف في نكاح) أنكره هو أو هي (ورجعة) جحدها هو أو هي بعد عدة (وفيء إيلاء) أنكره أحدهما بعد المدة (واستيلاد) تدعيه الأمة، ولا يتأتى عكسه لثبوته بإقراره (ورق ونسب) بأن ادعى على مجهول أنه قنه أو ابنه وبالعكس (وولاء) عتاقة أو موالاة ادعاه الأعلى أو الأسفل (وحد ولعان) والفتوى على أنه يحلف المنكر (في الأشياء) السبعة، ومن عدها ستة ألحق أمومة الولد بالنسب أو الرق."

(كتاب الدعوى، ج5، ص551 ط:سعید)

فتح القدير میں ہے:

"(ولأبي حنيفة أنه) أي النكول (بذل) وتفسير البذل عنده ترك المنازعة والإعراض عنها لا الهبة والتمليك."

(كتاب الدعوى، باب اليمين، ج8، ص184، دار الفكر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ولأبي حنيفة) أن النكول يحتمل الإقرار لما قلتم ويحتمل البذل لأن العاقل الدين كما يتحرج عن اليمين الكاذبة يتحرج عن التغيير والطعن باليمين ببذل المدعي إلا أن حمله على البذل أولى لأنا لو جعلناه إقرارا لكذبناه لما فيه من الإنكار ولو جعلناه بذلا لم نكذبه لأنه يصير في التقدير كأنه قال ليس هذا لك ولكني لا أمنعك عنه ولا أنازعك فيه فيحصل المقصود من غير حاجة إلى التكذيب وإذا ثبت أن النكول بذل وهذه الأشياء لا تحتمل البذل فلا تحتمل النكول فلا تحتمل التحليف لأنه إنما يستحلف المدعي لينكل المدعى عليه فيقضي عليه فإذا لم يحتمل النكول لا يحتمل التحليف."

(كتاب الدعوى، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ج6، ص227، دار الكتب العلمية)

فتح القدير میں ہے:

"(والبذل لا يجري في هذه الأشياء) فإنه لو قالت مثلا لا نكاح بيني وبينك ولكني بذلت لك نفسي لم يصح بذلها؛ وكذا لو قال أنا حر الأصل ولكن هذا يؤذيني بالدعوى فبذلت له نفسي ليسترقني، أو قال أنا ابن فلان ولكن هذا يؤذيني بالدعوى فأبحت له أن يدعي نسبي لم يصح بذله."

(كتاب الدعوى، باب اليمين، ج8، ص185، دار الفكر)

و فیہ :

"لأبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه بذل لأن معه لا تبقى اليمين واجبة لحصول المقصود وإنزاله باذلا أولى كي لا يصير كاذبا في الإنكار والبذل لا يجري في هذه الأشياء. وفائدة الاستحلاف القضاء بالنكول فلا يستحلف."

(كتاب الدعوى، باب اليمين، ج8، ص184، دار الفكر)

و فیہ :

" (ولأبي حنيفة أنه) أي النكول (بذل) وتفسير البذل عنده ترك المنازعة والإعراض عنها لا الهبة والتمليك، ولهذا قلنا: إن الرجل إذا ادعى نصف الدار شائعا فأنكر المدعى عليه يقضي فيه بالنكول، وهبة نصف الدار شائعا لا تصح، كذا في النهاية ومعراج الدراية نقلا عن الفوائد الظهيرية (لأن معه) أي مع البذل (لا تبقى اليمين واجبة لحصول المقصود به) أي لحصول المقصود من اليمين وهو قطع الخصومة بالبذل فيكون ذلك باعثا على ترك الإقدام على اليمين، هذا هو العلة المجوزة لكون النكول بذلا، وأما العلة المرجحة لكونه بذلا على كونه إقرارا فهي ما أشار إليه بقوله (وإنزاله باذلا أولى) أي من إنزاله مقرا (كي لا يصير كاذبا في الإنكار) أي في إنكاره السابق: يعني لو حملناه على الإقرار لكذبناه في إنكاره السابق، ولو جعلناه بذلا لقطعنا الخصومة بلا تكذيب، فكان هذا أولى صيانة للمسلم عن أن يظن به الكذب."

(كتاب الدعوى، باب اليمين، ج8، ص184، دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں