بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے ہر صاحب نصاب فرد پر علیحدہ قربانی واجب ہے


سوال

میری زوجہ کے پاس جو زیور ہے وہ عین نصاب کے مطابق ہے،  جب کہ میری والدہ کا زیور بھی ہے جو انہوں نے میری بہن کی شادی کے لیے رکھا ہے،  جب کہ والد کا انتقال ہوچکا ہے،  ہم دونوں بھائی مل کر کاروبار کرتے ہیں تو میری بھابی کے پاس بھی زیور نصاب کے مطابق ہے،  اس صورت میں ہم پہ کتنی قربانی فرض ہوگی دونوں بھائیوں پہ یا والدہ اور ہماری ازواج پہ بھی قربانی واجب ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ  قربانی کرنا واجب ہے، اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک  قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔

صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی اور سائل کے بھائی کی بیوی یعنی سائل بھابھی چوں کہ دونوں صاحب نصاب ہیں تو ان دونوں پر علیحدہ علیحدہ اپنے حصے کی قربانی لازم ہے، باقی سائل، بھائی اور والدہ اگر ان میں سے ہرصاحب نصاب ہے، یعنی:  جس کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض  اور بنیادی اخراجات کی رقم منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے افراد پر قربانی واجب ہے، قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے۔

اور اگر سائل، بھائی اور والدہ کے پاس مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مال نہیں ہے تو پھر ان پر قربانی بھی واجب نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا زيد بن الحباب، حدثنا عبد الله ابن عياش، عن عبد الرحمن الأعرج عن أبي هريرة، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا".

(باب الأضاحي واجبة هي أم لا؟، ج: ۴، صفحه: ۳۰۲، رقم الحدیث: ۳۱۲۳، ط: دار الرسالة العالمية)

الدر المختار و حاشية ابن عابدين "میں ہے: 

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم".

(کتاب الاضحیۃ، ج:6، صفحہ: 312، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں