بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کباڑ کے سامان سے نکلنے والی کرنسی کا حکم


سوال

 کباڑی سامان میں خاص کر بوٹوں اور کوٹوں میں غیر ملکی کرنسیاں ملتی ہیں یہ کرنسی اگر دورانِ صفائی مزدوروں کو ملے اس کا حکم کیاہے ؟ جس کو ملی ہے اس کی مِلک ہے ؟ یا جس کا سامان ہے اس کی ؟ یا لقطہ کے حکم میں ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  لنڈے کا  کپڑا خریدا جاتا ہے ، نہ کہ اس میں موجود نقدی و قیمتی سامان؛ لہذا  اس میں سے نکلنے والا سامان سارا لقطہ کے حکم میں ہے،اور اس کا واپس کرنا  لاز م ہے،اگر اس کا واپس کرنا  ممکن نہ ہو تو کسی غریب کو  صدقہ کرنا لازم ہے۔ اگر آپ کا مزدور غریب مستحقِ  زکوۃ ہو تو اس کو بھی دے سکتے ہیں ۔ اور اگر یہ مزدور کو ملے اور وہ غریب ہو تو وہ بھی لے سکتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين ، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لايرجع على الفقير و إن ضمن الفقير لايرجع على الملتقط و إن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه ، كذا في شرح مجمع البحرين."

(كتاب اللقطة، ج: ۲، صفحہ: ۲۸۹، ط: دارالفکر- بیروت)

مجمع الضمانات میں ہے: 

"وعلى الملتقط أن يعرفها إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبها لايطلبها بعد ذلك ... ثم يتصدق بها، وله أن ينتفع بها لو فقيرا فإن جاء صاحبها بعدما تصدق بها فهو بالخيار إن شاء أمضى الصدقة وله ثوابها، وإن شاء ضمن الملتقط، وإن شاء ضمن المسكين إذا هلك في يده وإذا كان قائمًا أخذه."

(مجمع الضمانات، المؤلف: أبو محمد غانم بن محمد البغدادي الحنفي (المتوفى: 1030هـ) الباب السادس عشر في مسائل اللقيط واللقطة، ص: ۲۰۹، ط: دار الكتاب الإسلامي)

 تبيين الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے: 

"وقيل إن شيئا من هذه المقادير ليس بلازم ويفوض إلى رأي الملتقط يعرفها إلى أن يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك وإن كانت اللقطة شيئا لا يبقى عرفها حتى إذا خاف أن تفسد تصدق بها وعنه عليه الصلاة والسلام {أنه مر بتمرة في الطريق فقال لولا أني أخاف أن تكون من الصدقة لأكلتها} رواه البخاري ومسلم."

(ج: ۳، صفحہ: ۳۰۳، ط:  دار الكتب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں