بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ اداکرنا ضروری ہے


سوال

اگر کوئی شخص فوت ہوا ہے ،اور اس کا بھائی اس پر الزام لگائے کہ  اس نے میرے 7000اینٹ دینےتھے، تو اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قرضہ جب تک  ادا نہیں کیا جائے گا تو معاف نہیں ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جن پر قرضہ ہو تا اور انہوں نے کچھ مال بھی نہیں چھوڑا ہوتا، اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے مگر قرض معاف نہیں کیا جائے گا ۔

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً مرحوم   کا بھائی اپنی بات میں سچاہے کہ مرحوم کے ذمہ سات ہزار اینٹ تھیں تو مرحوم کے  ورثاء کے  ذمہ لازم ہے کہ وہ مرحوم كے مال ميں سےقرضہ ادا کریں ، قرض ایسی چیز ہے وہ جب تک ادا نہیں کیاجائے گا تو معاف نہیں ہو گا، اس لیے قرضہ ادا کرنا ضروری ہے ورنہ مرحوم کے ذمہ لازم رہے گا ، اور اگر مرحوم کے ورثاء کو اس دعوی پر اعتماد نہیں تو پھر دعوی کر نے والے سے اپنا دعوی پر معتبر ثبوت (دوسرعی گواہ )طلب کریں پھر شرعی گواہوں سے اپنا دعوی ثابت کردےتو مرحوم کے ترکہ سے پہلے یہ قرضہ ادا کریں پھر ترکہ تقسیم کریں، اور اگر  اپنے  دعوی پر   معتبر ثبوت پیش نہیں کر سکا تو ورثاء کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم نہیں ۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن سلمة بن الأكوع، رضي الله عنه، قال : كنا جلوسًا عند النبي صلى الله عليه وسلم، إذ أتي بجنازة، فقالوا: صل عليها، فقال: هل عليه دين؟ قالوا: لا، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقالوا: يا رسول الله، صل عليها، قال: هل عليه دين؟ قيل: نعم، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: ثلاثة دنانير، فصلى عليها، ثم أتي بالثالثة، فقالوا: صل عليها، قال: هل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، قال: فهل عليه دين؟ قالوا: ثلاثة دنانير، قال: صلوا على صاحبكم، قال أبو قتادة: صل عليه يا رسول الله، وعلي دينه، فصلى عليه".

(رقم الحدیث:2298،ج:3ص:124،ط:دارالشعب القاھرۃ)

"ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس اثنا میں ایک جنازہ لایا گیا، لوگوں نے عرض کیا: اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر کوئی قرض ہے؟ صحابہ نے  کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں نے کہا: تین دینار، تو آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا، آپ  اس پر نماز پڑھ دیں، آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا:اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: تین دینار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اس پر نماز پڑھیں، میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔

صحیح مسلم میں ہے :

"حدثنا زكريا بن يحيى بن صالح المصري، حدثنا المفضل يعني ابن فضالة، عن عياش، وهو ابن عباس القتباني، عن عبد الله بن يزيد ابي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "يغفر للشهيد كل ذنب إلا الدين".

(كتاب الجھاد،باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطایاہ الاالدین،1502/3،مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهر)

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شہید کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، لیکن قرض (لوگوں کے حقوق) معاف نہیں ہوں گے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے :

"قوله يكفر كل شيء إلا الدين" ظاهره انه يكفر الكبائر من حقوق الله أيضاً والمشهور أنها لا تكفر إلا بالتوبه ولعل التطبيق بينهما أن الظاهر من المجاهد المخلص الذي يعرض حياته على أخطار الموت أنه قد أقدم على ذلك بعد ما تاب من كبائره، فكانت الشهادة مطهره لجميع الذنوب كبيرها وصغيرها، والله اعلم".

(كتاب الإمارة، باب من قتل في سبيل الله كفرت خطاياه،233/3،مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144404101820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں