بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا گوشت شادی کی دعوت میں کھلانا


سوال

 کیا قربانی کا گوشت لڑکی کی شادی استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

قربانی کی نیت سے جانور ذبح کرنے کے بعد اس کا گوشت  شادی کی دعوت میں مہمانوں کو  کھلا یا جاسکتا ہے،  اور اگر ولیمہ کی دعوت ہو  اور قربانی کے  بڑے جانور میں ولیمہ کی نیت سے   ایک حصہ رکھ  لیا جائے تو بھی قربانی باطل نہیں ہوگی۔

البتہ ایک حصہ میں دو نیتیں (قربانی اور ولیمہ) کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اگر ایک ہی حصہ کررہے ہیں تو قربانی کی نیت سے جانور ذبح کرلیں اور بعد میں اس کا گوشت ولیمہ کے مہمانوں کی دعوت میں صرف کردیں۔ نیز ایک سے زائد حصے ہوں تو ان میں بھی بہتر یہی ہے کہ قربانی کی نیت سے ہی جانور ذبح کیا جائے، پھر اس کا گوشت ولیمہ وغیرہ کی دعوت میں استعمال کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل، وشمل ما لو كان أحدهم مريداً للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد أيضاً؛ لأن نصيبه شائع كما في الخانية، وظاهره عدم جواز الأكل منها، تأمل، وشمل ما لو كانت القربة واجبةً على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا: كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافاً لزفر، لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قدولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد ولم يذكر الوليمة. وينبغي أن تجوز؛ لأنها تقام شكراً لله تعالى على نعمة النكاح ووردت بها السنة، فإذا قصد بها الشكر أو إقامة السنة فقد أراد القربة. وروي عن أبي حنيفة أنه كره الاشتراك عند اختلاف الجهة، وأنه قال: لو كان من نوع واحد كان أحب إلي، وهكذا قال أبو يوسف، بدائع". (6/326)

وفیہ ایضاً:

" ویأکل من لحم الأضحیة، ویؤکل غنیاً". وتحته في الشامیة: "هذا في الأضحیة الواجبة والسنة سواء إذا لم تکن واجبة بالنذر."

(شامی، کتاب الأضحیة،   ۶/۳۲۷) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں