کیا حج پرگیاہوابندہ اپنی قربانی کے لیے اپنے وطن میں کسی کو وکیل بناکرکرواسکتا ہے؟ یاپھر اس کی قربانی وہاں پر کرنا لازم ہوگی ؟
واضح رہے کہ اگر حاجی مسافر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، اگر مسافر حاجی اپنی خوشی سے قربانی کر ے گا تو ثواب ملے گا۔ البتہ اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخرجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کر نا لازم ہو گا ،حج قران اور حج تمتع کرنے کی صورت میں دم شکر کے طورپرا یک حصہ قربانی کرنا ایک دنبہ ،یا بھڑ یا بکر ی حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتاہے یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جوہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے ،دونوں الگ الگ ہیں؛ اس لیے دونوں کو ایک سمجھنا صحیح نہیں۔
صورتِ مسئولہ میں قربانی کے لیے وکیل بنانا شرعًا جائز ہے، تاہم اپنے وطن میں عید الاضحیٰ کی قربانی کرنے کی صورت میں ضروری ہوگا کہ ۔
دررالحکام میں ہے:
"وذكر في الأصل أنه لا تجب الأضحية على الحاج وأراد بالحاج المسافر، وأما أهل مكة فيجب عليهم الأضحية وإن حجوا كذا في البدائع، وقال في مبسوط السرخسي.وفي الأصل قال هي واجبة على أهل الأمصار ما خلا الحاج وأراد بأهل الأمصار المقيمين وبالحاج المسافرين"
(كتاب الأضحية،شرائط الأضحية،٢٦٥/١،ط: دار إحياء الكتب العربية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكرا لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد"
(كتاب الحج،فصل بيان ما يجب على المتمتع والقارن بسبب التمتع والقران،١٧٤/٢،دار الكتب العلمية)
فیہ ایضا:
"(ومنها) أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه و بغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لايقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصًا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج."
( كتاب التضحية، فصل في انواع كيفية الوجوب، ٥ / ٦٧، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412100549
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن