بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قراءت کی غلطی سے سجدہ سہو لازم نہیں


سوال

اگر ہم نماز میں کسی سورت  کی قراءت غلط پڑھیں تو کیا سجدہ سہو کرنا پڑے گا؟اگر ہم غلط پڑھ کے صحیح پڑھیں تو کیا اس صورت میں بھی سجدہ سہو کرنا ہوگا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر نماز کے دوران   قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے  ایسی غلطی  ہوجائے جس سے نماز فاسد  نہ ہوتی ہو تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا،  بلکہ نماز ادا ہوجائے گی۔اور سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔

اور اگر  ایسی غلطی  ہوجائے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے(مثلاً معنی میں تغیر فاحش ہوگیا)، پھر بعد میں کسی کے لقمہ دینے  سے یا از خود یاد آنے پر اس غلطی کی اصلاح کرلی تو  اگراسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح کرلی تو نماز  درست ہوجائے گی،  اعادہ لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی سجدۂ سہو لازم ہوگا۔

اور اگر اس رکعت میں  غلطی  کی اصلاح  نہیں کی ، یا اس رکعت کے علاوہ کسی اور رکعت میں  غلطی کی اصلاح کی تو ان دونوں صورتوں میں نماز درست نہیں ہوگی، بلکہ اعادہ لازم ہوگا، سجدہ سہو کرنا کافی نہیں ہوگا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"ولو ‌زاد ‌كلمة أو نقص كلمة أو نقص حرفاأو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها.... (قوله إلا ما يشق إلخ) قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفا مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـ .... قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا والقاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لا يميزون بينهما ويصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي ولا سيما على قول القاضي أبي عاصم وقول الصفار، وهذا كله قول المتأخرين، وقد علمت أنه أوسع وأن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: وهو الذي صححه المحققون وفرعوا عليه، فاعمل بما تختار، والاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها" .

(الدر مع الرد، کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ  ومایکرہ فیہا،ج:1،ص:632،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن غيّر المعنى تغييرًا فاحشًا بأن قرأ "وعصى آدم ربه" بنصب الميم ورفع الرب، وما أشبه ذلك، مما لو تعمد به يكفر، إذا قرأ خطأً فسدت صلاته."

(الفصل الخامس في زلة القارى، ج:1، ص:81، ط:مكتبة رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"ذكر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة وكذلك الإعراب".

(الفصل الخامس في زلة القارى، ج:1، ص:82، ط:مكتبة رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں