بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

"قرآن کہتا ہے کہ درگزر کا معاملہ کیاجائے" کے جواب میں کہنا: "قرآن پاک بعد میں اور میں پہلے، میں سچا ہوں، قرآن پاک بعد میں"


سوال

ایک شخص کی شادی 16 فروری 2021ء کو ہوئی، ایک ماہ بعد اپنی بیوی کو میکے جانے سے روک لیا جب کہ میکے والے آتے جاتے رہے، اس کے بعد 28 جنوری 2022ءکو میکے والے بطورِ جرگہ مذکورہ شخص کے گھر  گئے؛ تاکہ اس معاملہ کو رفع دفع کیاجائے،  تو مذکورہ شخص نےطرح طرح کے الزامات لگائے، یہاں تک کہ جرگہ میں شامل ایک شخص نے بطورِ نصیحت عرض کیا کہ "قرآن کہتا ہے کہ درگزر  کا معاملہ کیاجائے"   جس کے جواب میں اس شخص نے کہا کہ  "قرآن پاک بعد میں اور میں پہلے،  میں سچا ہوں، قرآن پاک بعد میں" ،  دریافت یہ کرنا ہےکہ اس شخص کے ایمان اور نکاح کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایمانیات کے معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے،کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگانا بہت بڑا معاملہ ہے،اس لیے فقہاء فرماتے ہیں کہ جب تک ایک احتمال بھی عدمِ کفر کاموجودہو، تب تک کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے  اور ایسے کلمات  جن میں بہت سارے احتمالات موجود ہوں، اس میں بہتر  یہ ہے کہ جس نے الفاظ ادا کیے اس سے معلوم کیا جائے کہ آپ کے ادا  کردہ الفاظ سے آپ  کی مراد کیا ہے، اگر اس کی وضاحت سے کوئی ایسا پہلو سامنے آئے جس سے کفر لازم آتا ہو، تو اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے، ورنہ احتیاط کی جائے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے سائل کے بیان کے مطابق جب جرگے کی حالت میں ایک شخص نے بطورِ نصیحت دوسرے سے یہ کہا کہ "قرآن کہتا ہے کہ  درگزر کا معاملہ کیاجائے" تو اس نے جواب میں کہا کہ"قرآن پاک بعد میں اور میں پہلے، میں سچا ہوں، قرآن پاک بعد میں ہے"  اگر ان الفاظ سے اس کی مراد یہ تھی کہ "پہلے میری بات تو سنو  قرآن بعد  میں ہے،قرآن اپنی جگہ،  یا میں سچا ہوں میرا حق تو دو قرآن کی بات بعد میں آئے گی کہ معاف کرنا ہے یانہیں  وغیرہ"  تو ایسی صورت میں کفر لازم نہیں آئے گا، اور اگر مراد  اپنی بات  یا خود کو قرآن کریم  سے بہتر و افضل سمجھنا ہو، یا قرآن کا استخفاف مراد ہو، تو اس صورت میں یہ کفریہ الفاظ ہیں، اور کفریہ الفاظ ادا کرنے والے  پر ایمان اور نکاح کی تجدید ضروری ہے۔

الغرض عافیت اسی میں ہے کہ  مذکورہ الفاظ ادا کرنے والے سے  خود مراد معلوم کی جائے  وہ جو بھی بیان کرے اس کے مطابق حکم ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌و يكفر ‌إذا ‌أنكر آية من القرآن أو سخر بآية منه إلا المعوذتين ففي إنكارهما اختلاف. و الصحيح كفره و قيل: لا، و قيل: إن كان عاميًا يكفر و إن كان عالمًا لا .....وفي الفتاوى الصغرى الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية أنه لا يكفر اهـ. وقال قبله وفي الجامع الأصغر إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمدا لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا لا يكفر لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر وقال بعضهم يكفر وهو الصحيح عندي لأنه استخف بدينه اهـ. وفي الخلاصة وغيرها إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنع التكفير فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل حينئذ وفي التتارخانية لا يكفر بالمحتمل لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اهـ.

والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلًا أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به قاضي خان في فتاويه ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لايكفر عند الكل ومن تكلم بها عالمًا عامدًا كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف والذي تحرر أنه لا يفتى بتكفير مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة."

(كتاب السير، باب احكام المرتدين، ج:5، ص:131تا135، ط:دار الكتاب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100843

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں