بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قومی بچت اسکیم کا منافع حرام ہے تو ناتجربہ کار ریٹائرڈ آدمی کیا کرے؟


سوال

میں نے آپ کا فتوی پڑھا کہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم کو قومی بچت میں جمع کرانا ناجائز ہے اور اور منافع سود ہے۔ بادی النظر میں آپ نے صحیح فرمایا، لیکن میرا سوال آپ کے جواب پر ہے کہ یہ ناجائز ہے تو ایک ریٹائرڈ آدمی کیا کرے؟ میں نے ایک نہیں بیسیوں مثالیں دیکھی ہیں کہ اگر پیسے کسی کے کاروبار میں لگائے تو وہ ڈوب گئے۔

اب جس کا کوئی سہارا بھی نہ ہو وہ کیا کرے گا؟  لوگوں کی زکاۃ پر گزارا کرکے کیسے معاشرے میں رہے گا؟  اسلام میں ایسے حالات جب کہ کہ حکومت بھی کوئی مدد نہ کرتی ہو تو انسان کو کیا کرنا چاہیے؟

اسلام کسی کو بھیک اور دوسرے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ میں ایک متاثرہ آدمی ہوں جس کی رقم ڈوب چُکی ہے، آپ کا پیش کردہ حل شاید بہت سے لوگوں کی پریشانیوں کا سد باب کردے!

جواب

واضح رہے کہ سود کا لینا، دینا ناجائز اور حرام ہے، اس پر قرآن و حدیث میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی لین دین کرنے والوں سے  اللہ اور اس  رسول کی طرف جنگ کا اعلان ہے، ایسے شخص کو  آپ ﷺ نے ملعون قرار دیا ہے، حاصل یہ ہے سود کا معاملہ بہت سخت ہے، لہذا سودی معاملہ کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے، اب  مروجہ جن اسکیموں میں شرعی اعتبار سے خرابیاں ہیں اور  شرعاً وہ سود پر مبنی ہیں تو ظاہر ہے ان کے حرام ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے؛  اس لیے اس کے حرام ہونے کا حکم بتایا جاتا ہے۔

جو  لوگ جو زندگی بھر حلال کماتے رہے اور محنت کرکے حلال پر اکتفا  کرتے رہے، وہ زندگی کے اس اخیر حصے میں سود کے لین دین میں ملوث ہوجائیں تو یہ کس قدر خطرناک بات ہے کہ وہ اللہ سے اس حال میں ملیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کے ساتھ جنگ کا اعلان کیا ہوا ہو، اس لیے ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے خوب مانگیں، اور حلال آمدنی کی کوشش کریں، حلال خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو  اس میں برکت ہوتی ہے اور حرام خواہ کتنا ہی زیادہ ہو، اس میں تباہی اور بربادی ہوتی ہے۔

حلال آمدنی کے لیے شرعاً  شرکت یا مضاربت کا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے، شرکت یہ ہے کہ کسی معتبراورامانت دار تاجرکے ساتھ مل کر کاروبار میں رقم لگادی جائے، اگر خود کام کرسکتے ہیں تو  بہتر ورنہ اس کے کام کے عوض باہمی رضامندی سےنفع کے فیصدی  تناسب میں کمی بیشی کرلی جائے، اورشراکت کی بنیاد پرجو فیصدی نفع ملے گاوہ جائزہے۔ اور مضاربت کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص جو کاروبار کا تجربہ رکھتا ہو، اس کو سرمایہ دے کر کام کرایا جائے، یعنی آپ کا سرمایہ ہو اور اس کی محنت ہو، اور حاصل ہونے والے نفع کے فیصد کے اعتبار سے باہمی نفع کا تناسب طے کرلیا جائے۔

بلاشبہ ان معاملات میں ہر ایک شخص پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اور شریعت و فطرت دونوں کا تقاضا بھی یہ ہی ہے کہ معاملہ کرتے وقت ابتدا سے ہی تمام جزئیات طے کرلی جائیں، اور کسی مستند عالم یا مفتی کی راہ نمائی سے عاقدین باہم ایک تحریری معاہدہ کرلیں، جس پر گواہ بھی موجود ہوں، اور وقتاً فوقتاً غیر محسوس انداز میں شریک (پارٹنر) کے کام کی نگرانی یا مضارب پر  بھی نظر رکھی جائے، اگر دھوکے کا اندازا ہو تو بروقت مناسب تنبیہ ہو، یا کم از کم اپنے نقصان سے بچا جاسکے۔

نیز مختلف چیزیں مثلاً گاڑی، دکان، مکان وغیرہ خرید کر  کرایہ پر دے کر بھی آمدنی حاصل جاسکتی ہے، بلکہ موجودہ دور میں بعض معمولی قیمت کی چیزیں بھی کرایہ پر دی جاتی ہیں، اس میں بھی چھوٹی انویسٹمنٹ کی جاسکتی ہے، مثلاً: بہت سے لوگ برتن خرید کر کیٹرنگ والوں کو کرایہ پر دے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔  یہ طریقہ ”اجارہ“ کہلاتا ہے۔

اسی طرح سونایا کرنسی خرید کر، دام بڑھنے پر بیچنا  بھی جائز کاروبار کی ایک شکل ہے۔

الغرض سود کی لعنت کے علاوہ دنیا میں اور بہت سے طریقہ ہیں جن سے حلال آمدن حاصل کی جاسکتی ہے، کاروبار کے تجارتی پہلو سے متعلق  اپنے کسی واقف زیرک تاجر شخص سے مشورہ کرلیں، اور جو کام شروع کریں اس کی شرعی راہ نمائی کے لیے مستند عالم دین /مفتی یا کسی قریبی دارالافتاء سے راہ نمائی لے لیں۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين فإن لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لاتظلمون ولاتظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون} (البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگے تو  تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤگے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔(بیان القرآن )

حدیثِ  مبارک  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»".(الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار إحیاء التراث ، بیروت. مشکاة المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں