بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت مجبوری کی حالت میں قومی بچت اسکیم سے منافع لے سکتی ہے؟


سوال

کیا عورت مجبوری کی حالت میں قومی بچت سے منافع لے سکتی ہے،جب کہ اسے یہ خدشہ ہو کہ اس کا شوہر پیسے اڑا دے گا؟

جواب

قومی بچت اسکیم میں پیسے جمع کراکر اس پر منافع لینا سود ہے جوکہ ناجائز و وحرام ہے، سود کا لین دین کرنے والوں کے لیے  اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے، ظاہر بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرکے کوئی جیت نہیں سکتا، لہذا کسی صورت قومی بچت اسکیم میں پیسے جمع کراکر اس کا نفع لینا جائز نہیں۔ نیز پیسے محفوظ رکھنے کے لیے کوئی بھی جائز راستہ اختیار کرنے کی شرعًا ممانعت نہیں، لیکن حرام سے بچنا شرعًا لازم ہے۔ 

قرآنِ کریم میں ہے:

{يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين فإن لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لاتظلمون ولاتظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون}  (البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگے تو  تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤگے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔(بیان القرآن )

حدیثِ  مبارک  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» . وقال: «هم سواء»". (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط: دار إحیاء التراث ، بیروت. مشکاة المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں