بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیونیٹ پراڈکٹ (Qnet Products) کمپنی کا ممبر بننا


سوال

 میں اپنا ایک بزنس کرتا ہوں ایک کمپنی کے ما تحت جس کا نام بہت معروف ہے، Qnet Products، اس میں میرے دو کام ہوتے ہیں: ایک میں کمپنی کی مصنوعات خرید کر دیتا ہوں لوگوں کو۔ اور دوسرا جو بھی میرے واسطہ سے اس کمپنی میں آ تے ہیں کمپنی مجھے چند محدود فائدہ دیتی ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق Qnet Products کمپنی کا طریقہ کاروبار اور بزنس ماڈل ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنیوں کی طرح ہے،  اور ان کا بزنس ماڈل چین در چین کمیشن کا ہے کہ نئے ممبر بنانے کے بعد  ہر بعد میں شامل ہونے والے ممبر کے منافع میں سے پہلے شخص کو بھی منافع ملتا رہتا ہے، اس کا شرعی حکم یہ ہے:

شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے  کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاءِ کرام نے  کمیشن کے معاوضہ کے اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر اس کی اکثر صورتوں کو ناجائز قرار دیا ہے،  البتہ لوگوں کی ضرورت اور کثرتِ تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے۔

لہذا  جس  معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس طرح   اس  سائٹ کی پبلسٹی کرناکہ  جس میں چین در چین کمیشن ملتا رہے جب کہ  اس نے  بعد والوں  کی خریداری میں  کوئی عمل نہیں کیا، اور اس میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہیں ہوتی، بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھاناہے  جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔

حاصل یہ ہے کہ   کسٹمر کو لانے والے شخص کا اس پہلے کسٹمر کے لانے پر  کمیشن کا لین دین تو جائز ہے، لیکن اس کے بعد چین در چین یہ سلسلہ چلنا کہ ہر بعد والے کسٹمر کا کمیشن بھی پہلے والے  شخص کو ملتا رہے، یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

نیز اس کمپنی اور ممبر کے درمیان ہونے والا عقد ’’عقدِ اجارہ‘‘ ہے،  اس میں کوئی ایسی  شرط لگانا جس میں کسی فریق کا فائدہ اور وہ عقد کا مقتضا نہ ہو، یہ جائز نہیں ہے،  اس کمپنی کا ممبر بننے  کے لیے   دس ڈالر ادا کرنے شرط بھی ہے۔

لہذا اس کمپنی کا ممبر بننا جائز نہیں ہے۔

شعب الإيمان (2/ 434):

عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ .

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 47):

قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل، وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل، فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي.

وفیه أيضًا (6 / 63):

وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه، كدخول الحمام.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں